اسی طرح سے چالیس سال کا عرصہ گزر گیا۔
چالیس سال بعد اس مرد کا انتقال ہو گیا۔ اور وہ اپنی بیوی کے نام ایک خط چھوڑ گیا۔ خط میں لکھا تھا۔۔
میری پیاری ، پلیز مجھے معاف کر دینا۔ اس جھوٹ کیلیے جو ساری زندگی میں تم سے بولتا رہا۔ یہ ایک ہی جھوٹ ساری زندگی میں نے تم سے بولا اور یہ نمکین کافی کے متعلق تھا۔ مجھے نمکین کافی نہیں پسند۔
جب ہماری پہلی دفعہ ملاقات ہوئی تھی تو میں اس وقت بہت زیادہ نروس تھا۔ مجھے شکر چاہیے تھی مگر میرے منہ سے نمک نکل گیا۔ میرے لیۓ یہ مشکل تھا کہ میں اپنی کہی ہوئی بات بدل دوں۔یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ یہی بات ہماری ملاقاتوں کا سبب بن جاۓ گی۔
میں نے کئی بارتمہیں سچ بتانے کی کوشش کی ۔ مگر مجھے ڈر لگتا تھا کیونکہ میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ میں کبھی تم سے جھوٹ نہیں بولوں گا۔اب میں مرنے والا ہوں لہذٰ مجھے کسی بات کا خوف نہیں۔اور میں تمہیں سچ بتا رہا ہوں۔
مجھے نمکین کافی بلکل اچھی نہیں لگتی۔۔۔۔۔۔بہت برا ذائقہ ہوتا ھے! لیکن میں نمکین کافی پیتا رہا۔ میں تم سے محبت کرتا ۔ اس مجھے کسی بات کا افسوس نہیں ہوتا جو میں تمہارے لیے کرتا تھا۔
تمہارا ساتھ میری زندگی کی سب سے بڑی نعمت ھے۔ اگر مجھے ایک اور زندگی ملے تو میں تمہیں ہی اپنا ہمسفر بنانے کی خواہش کروں گا۔چاہے مجھے دوبارہ زندگی بھر پھر نمکین کافی پینی پڑے۔
عورت کے آنسوؤں نے خط کو بھگو دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر کسی روز کسی نے اس سے پوچھا " نمکین کافی کا ذائقہ کیسا ہوتا ھے؟"
" انتہائی میٹھا، شیریں اور محبت بھرا" عورت نے مسکرا کر جواب دیا۔۔۔