قرآن سے پہلے جس قدر آسمانی کتابیں نازل ہوئیں ہیں ان میں اس قدر ردو بدل ہو چکا ہے کہ اب یہ معلوم کرنا محال ہے کہ ان میں کونسی بات خدا کی طرف سے ہے اور کونسی بات انسان نے خود سے لکھ دی ہے ۔ لیکن صرف قرآن کریم ایسی آسمانی کتاب ہے جو جس صورت میں حضور اکرمؐ پر نازل ہوئی تھی آج بجی اسی صورت میں موجود ہے۔ اس کے ایک ایک لفظ بلکہ حرف میں بھی ذرا بھہ فرق نہیں آیا۔ ہم پورے اطمینان سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ یہ خالص اللہ کا کلام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:-
انا نحن نزلنا الذکرا وانا لہ لحفظون
یعنی " بے شک یہ کتاب نصیحت ہم نے ہی اتاری ہے۔ اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔ " اسی حفاظت قرآن کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ دنیا میں لاکھوں حافظ ہیں اور ان کے سینوں میں قرآن محفوظ ہے۔یہاں تک کہ کم سن بچوں کے سینوں میں بھی یہ کتاب محفوظ ہے۔
قرآن کریم ایک انقلاب آفرین کتاب ہے۔ پورا قرآن پڑھ جائیے آپ کو ایک آیت بھی ایسی نہیں ملے گی ۔ جس میں آداب غلامی سکھائے گئے ہوں اس کے برعکس یہ اپنے ماننے والوں کو سراسر اصول حکمرانی و جہانگیری سکھاتی ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ:-
ان بیچاروں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں بندوں کو غلامی کے طریق!
یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس کے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشہ عزلت سے نکال کر خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا اور اس کے خلاف اس سے آواز اٹھائی اور وقت کے علمبرداران کفر و ظلاظت سے اس کو گھر گھر سے ایک ایک سعید روح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ لائی اور داعی حق کے جھنڈے تلے سب کو اکھٹا کیا ۔ گوشے گوشے سے ایک فتنہ جو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اٹھایا اور حامیان حق سے ان کی جنگ کروائی۔ ایک فرد واحد کی پکار سے اپنے کام شروع کر کے خلافت الہٰیہ کے قیام تک پورے 23 سال یہی کتاب اس عظیم و الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی اور حق و باطل کی اس طویل جان گسل کشمکش کے دوران ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اسی نے تہذیب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بنائے۔