part 2)مولانا ظفر علی خان کے حالات زند گی اور انکی شاعرانہ خصوصیات

Posted on at


مولانا ظفر علی خان کی یہ ساری سرگرمیاں قیام پاکستان کے ساتھ اختتام کو پہنچیں۔ وہ ایک بے باک سیاسی رہنما، پر جوش مقرر اور بلند پایا صحافی ہونے کے علاوہ ایک قادر الکام شاعر بھی تھے  جن کی بدیہہ گوئی اور قادر الکامی اپنا جواب نہیں رکھتی۔

مولانا ظفر علی خان کا بہت سا کلام حوادث زمانے کی بدولت ضائع ہو چکا ہے۔ البتہ وہ کلام محفوظ ہے جو نگارستان ، بہارستان اور چمنستان کے مجموعوں کی شکل میں شائع ہوا ہے۔ وہ شاعر ہونے کے علاوہ ایک مشاق مترجم اور بلند پایہ نثر نگار بھی تھے۔ معرکہ مذہب و سائنس، جنگل میں منگل، غلبہ روم، حقیقت و افسانہ، حقائق و معارف ، جواہر الادب ان کی نثری تصنیف ہیں۔

مولان ظفر علی خان کو شاعری کا شوق طالب علمی کے زمانے سے ہی تھا۔ علی گڑھ میں اس شوق کو اور ترقی ملی۔  علامی شبلی اور سرسید انکی نظمیں سن کر ان کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ وہ بنیادی طور پر ایک سیاستدان تھے۔ جنہوں نے ملک و ملت کی خاطر شاعری بھی کی اور صحافت بھی، مقرر بھی بنے اور ادیب بھی۔ اس لحاظ سے شاعری ان کی بھرپور زندگی میں ایک جزو کی حیثیت رکھتی تھی، مگر اس جزوی حیثیت میں بھی وہ شان اور آن بان ہے جو بہت سے دیگر " ہمہ وقتی" شاعروں کے لیے بھی قابل صد رشک ہے۔

مولانا ظفر علی خان ایک نہایت قادر الکام شاعر تھے انھوں نے عربی فارسی الفاظ و تراکیب کو بڑی خوبی سے استعمال کیا ہے۔ موضوعات کو جتنا تنوع ان کے ہاں ملتا ہے، اس دور کے اور کسی شاعر کو نہیں ملتا۔ زبان اور محاورے پر انھیں پوری گرفت حاصل تھی اور وہ ہر موضوع کو مناسب الفاظ میں ادا کرنے پر قادر تھے۔ قافیوں کے تو وہ بادشاہ تھے۔ زبان پر اس بے پناہ قدرت کے باعث اہل زبان ، ادیب اور نقاد بھی ان کی زبان دانی اور قادر الکلامی کا لوہا مانتے تھے۔

ظفر علی خان کی شاعری میں بلند آہنگی پائی جاتی ہے۔وہ ایک بے خوف سیاسی رہنما اور آتش بیاں مقرر تھے۔ ان کی اپنی شخصیت نہایت پر جوش تھی۔ چنانچہ جوش و ولوے کی یہ کیفیت ان کی شاعری میں بھی نظر آتی ہے۔ جس میں ایک شعلہ نما خطیب کا آہنگ ملتا ہے۔ وہ جذبہ و احساس کی پیدا کردہ کشمکش ذات کے شاعر نہیں بلکہ الفاظ کی قوت کے شاعر تھے۔ اب کے الفاظ باوقار اور بارعب ہوتے تھے۔ یہ پر شکوہ الفاظ ان کے پر جوش لہجے اور ولولہ خیز اسلوب میں ڈھل کر ایسے اشعار کی صورت میں سامنے آتے تھے کہ ظفر علی خان چاہے حمدو نعت لکھتے ہوں یا مخالفوں کی ہجو، انگریزی حکومت پر تنقید کریں یا حریت کے لیے جدو جہد، ان کا کلام ایک نعرہ مستانہ ہوتا ہے جو قلب کو گرماتا اور روح کو تڑپاتا ہے۔

طفر علی خان کی شاعری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان کی بیشتر نظمیں مختلف سیاسی ہنگامی موٖضو عات پر لکھی گئی ہیں۔ انہوں نے خود سیاست اور جدوجہد آزادی میں بھر پور حصہ لیا اور انکی ساری گرمیاں ایک اسی مرکزی سرگرمی کے طابع تھیں۔ ان کی شاعری میں سائمن کمیشن کا مقاطعہ ، شہد گنج اور تحریک پاکستان کے مختلف مراحل کی تفصیل ملتی ہے۔ ہنگامی سیاسی شاعری اگر چہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی اہمیت کھو دیتی ہے مگر مولانا ظفر علی خان کی سیاسی شاعری اس لحاظ سے مستقل قدر و قیمت کی حامل ہے کہ یہ تاریخ آزادی کے مختلف مراحل کی منظوم یاداشت اور اہم دستاویز ہے۔



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160