مولانا حالی روایتی طرز کی طرح بلبل کی شاعری کے خلاف تھے۔ انہوں نے غزل کو حسن عشق کے گھسے پٹے راستے سے ہٹا کر مقصدیت کے راستے پر گامزن کیا۔ اس طرح غزل میں ایک وسعت پیدا ہوئی اور وہ ایک نئے آہنگ سے روشناس ہوئی۔ اس لیے وہ جدید غزل گو ہیں۔؎
ہے جستجو کے خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں
حالی کے دور میں شعراء غزل کے روایتی ڈگر پر چل رہے تھے۔ انہوں نے غزل میں اصلاح کے ساتھ نظم میں بھی ایک نیا باب کھولا۔ اور ملی، قومی ، تہذیبی اور معاشرتی مسائل پر خوبصورت نظمیں لکھ کر اردو شعراء کو ایک نیا راستہ دکھایا۔ اس اعتبار سے حالی کو جدید نظم کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔
حالی نے معاشرے کی اصلاح کا گہری نظر سے معائنہ کیا۔ وہ معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے تھے۔ ایک تجربہ کار طبیب کی طرح انھوں نے قوم کا مرض جان لیا۔ اس وقت کی سب سے بڑی بیماری حق و صداقت سے دوری تھی۔ حالی نے اس مرض کو دور کرنے کا کام اپنے ذمہ لیا۔ انھوں نے اپنی نظموں کے ذریعے لوگوں کو حق و صداقت کے راستے میں آنے والی تکلیفوں کو برداشت کرنے کی طرف مائل کیا۔ اور یقین دلایا کہ کامیابی و کامرانی ایسے لوگوں کے قدم چومتی ہے جو محنت و صداقت سے کام لیتے ہیں۔ نااتفاقی، جھوٹ اور بددیانتی میں مبتلا قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔یہ سب باتیں سر سید تحریک کے زیر اثر حالی نے اپنائیں۔
حالی کا مطمع نظر اخلاقی اصلاح تھا۔ اس لیے ان کی نظر معاشرے کی ان قباحتوں پر زیادہ پڑتی ہے جنہوں نے انسانی زندگی کو گھناؤ نا بنا دیا تھا۔ ہندوستان میں عورت کی حیثیت ایک کھلونے سے زیادہ نہ تھی۔ معاشرے میں اس کا کوئی مقام نہ تھا۔ عورت دکھی اور مظلوم تھی۔ اس کی فریاد سننے والا کوئی نہ تھا۔ اس کے کوئی حقوق نہ تھے۔ حالی نے صدیوں سے ظلم کی چکی میں پستی ہوئی عورت کے درد کو محسوس کر کے اس کے حق میں آواز اٹھائی۔
نثر میں اگر چہ نظیراحمد عورتوں کی اصلاح کے بارے میں ناول لکھ چکھے تھے۔ لیکن ادب میں نظم کا گوشہ عورت کے حق میں بالکل خاموش تھا۔ حالی نے عورت کی بھلائی اور بہتری کے لیے کوشش کی اور چنانچہ انھوں نے پہلی دفعہ اپنی نظموں کے ذریعے یہ بات ثابت کی کہ عورت ماں ، بہن، بیٹی ، بہو اور بیوی جیسے مقدس رشتوں کی امین ہے۔ انھوں نے چپ کی داد اور مناجات بیوہ جیسی نظمیں لکھ کر اردو شاعری میں پہلی مرتبہ عورت کے حقوق متعین کیے ۔ حالی کا یہ کارنامہ ناقابل فراموش ہے:-
اے ماؤں، بہنوں ، بیٹیوں دنیا کی زینت تم سے ہے
ملکوں کی بستی ہو تمہیں قوموں کی عزت تم سے ہے
تم گھر کی ہو شہزادیاں ، شہروں کی ہو آبادیاں
غمگین دلوں کی شادیاں، دکھ سکھ میں راحت تم سے ہے