جوش ملیح آبادی اس دور کی پیداوار ہیں جب پورا ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں جھکڑا ہوا تھا اور لوگوں میں افسردگی اور یژ مددگی تھی۔ غیر ملکی آقاؤں کا ہر طرف خوف مسلط تھا، ایسے میں دبی دبی چینخیں ابھرنے لگیں۔ بعض طبقوں میں حرارت پیدا ہونے لگی۔ چنانچہ جوش کی طبیعت میں بھی عوامی نفسیات کے مطابق حریت و انقلاب کی روح بیدار ہوئی۔ اور انہوں نے بہت ہی گھن گرج کے ساتھ اپنے خیالات کا برملا اظہار کیا۔ انہوں نے حالات کی تلخی کو تباہ کن لہجے میں پیش کیا جو نوجوانوں کے گرم خون کو اور بھی زیادہ گرمانے اور بھڑکانے میں معاون ثابت ہوا۔ وہ خود کہتے ہیں :
کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
انہوں نے کسانوں، مزدوں اور محنت کش طبقوں کے جذبات کی ترجمانی کی اور استعماری قوتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ انہیں استحصالی ٹولے کے ظلم و ستم ایک آنکھ نہیں بھاتے کونکہ وہ انسان کے منصب اور مرتبے سے واقف ہیں۔ اس لیے عظمت آدم کے گیت گاتے نظر آتے ہیں:
اٹھ کھڑے ہو آؤ تکمیل عبادت کے لیے
اک نیا نقشہ بنائیں آدمیت کے لیے
آ رہا ہے تازہ وارث عالم ایجاد کا
جلد تر اعلان کردو اک نئے حیاد کا
سرنگوں رہتی ہیں جس سے قوتیں تخریب کی
جس کے بوتے پر لچکتی ہے کمر تہذیب کی
"کسان " ان کی معرکہ آرا نظم ہے۔ ان کی انقلابی نظموں میں "بغاوت" " شکست زاندان کا خواب" اور " فرد انقلاب" بڑے معرکے کی نظمیں ہیں۔
جوش فطری طور پر حسن پرست واقع ہوئے تھے۔ وہ کائنات کے کسی بھی حصے میں حسن کی جھلک دیکھتے ہیں تو ضرور متاثر ہوتے ہیں۔ پہاڑوں کی بلندی میں، ستاروں کی جھلملاہٹ میں، چاند کے پر نور چہرے میں، بہاروں کی گنگتاتی فضا میں، سبک خرام معطر ہواؤں میں، لچکتی بل کھاتی شاخوں اور عورت کی کمر میں۔ شفق گلاب یا چہرہ محبوب کی سرخی میں غرض کہیں بھی وہ حسن کی جھلکیاں دیکھتے ہیں تو بے خود ہو جاتے ہیں اور کیف و سرمستی سے سرشار لفظوں میں اس کو بیان کر دیتے ہیں مثال کے طور پر " کوہستان دکن کی عورت" میں کہتے ہیں:
یہ ابلتی عورتیں اس چلچلاتی دھوپ میں
سنگ اسود کی چٹانیں آدمی کے روپ میں
چال جیسے تند چشمنے، تیوریاں جیسے غزال
عارضوں میں جامنوں کا رنگ، آنکھیں بےمثال
عورتیں ہیں یا کہ ہیں برسات کی راتوں کےخواب
پھٹ پڑا ہے جن پہ طوفان خیز پتھریلا شباب
ان نظموں میں " البیلی صبع" برسات کی چاندنی"، " شام کارومان""حسن مخمور"، "اٹھتی جوانی" وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جن میں حسن فطرت اور حسن شباب کا بیان اپنے عروج پر ہیں۔
جوش حسن و عشق کے شاعر ہیں۔ ان کے یہاں قدرت کے حسن اور اس کے نکھار کا بڑا موثر بیان ہے۔ اور مناظر فطرت کی منظر کشی اس طرح کرتے ہیں گویا وہ منظر ہو بہو آنکھوں کے سامنے آ گیا ہو اور آدمی اس سے ایسے ہی لطف لے رہا ہو جیسے وہ حقیقت میں کسی ایسے ہی دلکش و دلچسپ منظر سے لیتا ہے بلکہ بعض اوقات وہ حسن فطرت کے ایسے گوشوں کو منظر عام پر لاتے ہیں کہ قاری انک تخیل کا اسیر ہو کر اس میں گم ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر "البیلی صبع میں کہتے ہیں:
نظر جھکائے عروس فطرت، جبیں سے زلفیں ہٹا رہی ہے
سحر کا تارا ہے زلزلے میں افق کی لو تھرتھرا رہے ہے
طیور بزم سحر کے مطرب، لچکتی شاخوں یہ گا رہے ہیں
نسیم فردوس کی سہیلی ، گلوں کو جھولا جھلا رہی ہے