مجید امجد کا کلام مقدار اور معیار دونوں اعتبار سے دور حاضر کے اہم شاعروں سے بڑھ کر ہے۔ "شب رفتہ" ان کا پہلا شعری مجموعہ تھا جو 1958ء میں نیا ارادہ ، لاہور کی طرف سے شائع ہوا تھا۔ وفات کے بعد احباب اور قدر دانان فن کی کوشش کی بدولت دوسرا ضخیم مجموعہ" شب رفتہ کے بعد" کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے علاوہ بعض لوگوں نے ان کے بعض مجموعہ ہائے کلام شائع کیے جن میں " میرے خدا، میرے دل (تاج سعید) گلاب کے پھول (محمدحیات سیال) طاق ابد (شمیم حیات سیال)مرگ صدا( محمد امیں) قابل ذکر ہیں۔ اب ان کا بیشتر کلام یکجا ہو کر " کلیات مجید امجد" (مرتبہ ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا ) کی صورت میں شائع ہو چکا ہے؎
اس کو ناقدرئی عالم کا صلہ کہتے ہیں
مر گئے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
مجید امجد کا شمار ایسے نابغئہ روز شعراء میں ہوتا ہے جنہیں اپنی زندگی میں تو کوئی خاص شہرت نہ ملی مگر ان کی وفات دنیا ان کے فن کو پہچانتی اور ان کی فنکارانہ عظمت کو مانتی ہے۔ ان کی زندگی میں کوئی ادبی حلقہ انہیں دوسرے بلکہ تیسرے چوتھے درجے کا شاعر ماننے کو تیار نہ تھا مگر ان کی وفات کے بعد ہر ایک ادبی حلقہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ان کی شاعرانہ عظمت کو خراج تحسین پیش کر رہا ہے۔ آج نقادان فن ان کے فن پر بات کرتے ہیں تو انھیں شاعروں کی دوسری تیسری نہیں بلکہ پہلی صف میں بیٹھاتے ہیں اور ان کی شاعری اور شاعرانہ صلاحیتوں کو دور جدید کی شاعری کی آبرو قرار دیتے ہیں۔
مجید امجد کے کلام کی نمایاں ترین خصوصیت موضوعات کا چناؤ ہے۔ وہ اردگر پھیلی ہوئی زندگی یا اس کے مناظر سے کوئی ایسا تصور منتخب کرتے ہیں جو بظاہر بہت عام اور کئی بار دیکھا ہوتا ہے اور کوئی اسے قابل التفات یا اہم نہیں سمجھتا مگر مجید امجد اس کے ایسے ایسے گوشے سامنے لاتے ہیں اور نظم کوزندگی کے مسائل کے ساتھ اس طرح ہم آہنگ کر دیتے ہیں کہ وہی عام اور معمولی سی بات غیر معمولی نظم کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ " ایک کوہستانی سفر کے دوران" اور مجید امجد کی دیگر بہت سی نظمیں موضوعات کے حسن انتخاب کی نمایاں مثالیں ہیں۔
مجید امجد کے کلام کا ایک وصف یہ ہے کہ ان کی نظمیں ایک درد مند ، حساس ، باخبر اور منفرد ذہن و دل کی عکاس ہیں۔ ان کی شاعری اپنے اندر فکر و نظر اور احساس درد و کرب کی ایک دنیا لیے ہوئے ہے۔ وہ ایسے حادثات پر بھی تڑپتے ہیں جنہیں کوئی حادثات کہنے اور سمجھنے کو ہی تیار نہیں ہوتا۔ ان کا دل ایسے المیوں پر بھی خون کے آنسو روتا ہے جنہیں لوگ المیے تسلیم ہی نہیں کرتے۔"توسیع شہر" ان کے دل کی درد مندی کی ایک ایسی مثال ہے کہ شہر کی توسیع کی خاطر نہر کے کنارے لگے ہوئے درختوں کے کٹنے سے کسی کو کوئی صدمہ محسوس نہیں ہوتا مگر مجید امجد ان درختوں کے کٹنے کا نوحہ پڑھتے ار درختوں کے کٹنے کے غم سے ہلکان ہوتے نظر آتے ہیں۔؎
جن کی آنکھوں کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چیر گئے ان ساونتوں ک جسم