part 2)احسان دانش کے حالات زندگی اور ان کے کلام کی خصوصیات

Posted on at


احسان دانش کا بیان عام فہم اور آسان ہے۔ وہ فلسفی نہیں بلکہ بیانیہ شاعری کرتے ہیں۔ جب وہ کسی واقعہ اور کیفیت کو بیان کرتے ہیں تو ان کا بیانیہ اسلوب دلوں کو متاثر کیے بغیر  نہیں رہتا۔؎

جب  آبلہ   پا  جوش   میں  کانٹوں  پہ   چلے  ہیں

خاموش  سلام  آئے  ہیں   منزل   کی  طرف سے

احسان بھی ترقی پسند جذبات رکھتے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بات کرتے ہیں لیکن  جوش کی طرح بغاوت پر نہیں اترتے۔ ان کے ہاں  تلخی و بیزاری ، درشتی و جلال نہیں ہے بلکہ نرمی و شائستگی اور بے چارگی و حسرت ملتی ہے۔

احسان کی غزلوں میں بھی ان کا وہی مخصوص انداز ، جدت اور انوکھا پن نمایاں ہے۔ ان کی غزلوں میں سوزوساز کے علاوہ تصوف ، فلسفہ اور محاکات ملتے ہیں۔ ان کا انداز بیاں ان کی تشبیہیں اور استعارے عام فہم ہوتے ہیں۔

کوئی  اس  دور  میں وہ  آیئنے تقسیم  کرے

جن میں باطن بھی نظر آتا ہو طاہر کی طرح

دیکھ  اے  دل  وہ  اٹھ   رہی   ہے   نقاب

اب    نظر   آزمائی    جاتی     ہے

احسان دانش ایک خوددار انسان تھے۔ انہوں نے کبھی کسی امیر کی مدح سرائی نہیں کی۔ اپنی پوری زندگی درویشی اور قلندری میں  گزار دی۔ ان کے کلام میں فاقہ کشی کے الم پرور مناظر ، پامال انسانیت کے درد انگیز خاکے  اور سرمائی داروں  کے بیدار کن مظالم  کی داستانیں  نظر  آئیں گی۔

؎

مانگتے  پھرتے  ہیں   اغیار  سے  مٹی کے چراغ

اپنے  خورشید  پہ   پھیلا   دیے  سائے  ہم  نے

احسان میں حب وطن  کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ وطن کی نظموں میں انہوں نے اپنے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی ہے۔ ان کی نعتیہ شاعری کا یہ شعر لاجواب ہے۔؎

دانش  میں  خوف  مرگ  سے مطلق  ہوں  بے نیاز

میں  جانتا  ہوں  موت  ہے  سنت  حضو   کی

احسان دانش اردو شاعری میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔  نظم گوئی جوش کے بعد وہ اس دور کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ ان کی نظموں میں جوش و ولولہ اور عزم و ہمت سب کچھ ہیں۔ ان کے ہاں دینی اقدار  اور مشرقی روایات کا رچاؤ ملتا ہے۔ انہوں نے بالکل ٹھیک کہا ہے:

ادب کی دھندلاہٹوں میں احسان اٹھا ہوں لے کر چراغ عقیدت

خدا    نے   چاہا   تو   میرا   دیوان  زمیں  کا  آفتاب   ہو  گا



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160