part 2)اسرارالحق مجاز کے حالات زندگی اور ان کی پرکشش شاعرانہ خصوصیات

Posted on at


مجاز ایک پرجوش رومانوی شاعر ہیں۔ وہ عشق و محبت کا پرستار ہے۔ اس کے ہاں جمالیاتی احساس بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ محبت کے جذبات اور واردات عشق کو بڑے سلیقے اور حسین پیرائے میں بیان کرنے کا انھیں فن آتا ہے۔ اس کی تمام شاعری اس کے اپنے محسوسات اور جذبات کی آئینہ دار ہے۔ خاص طور پر حسن و عشق کے معاملے میں وہ بڑا بے باک واقع ہوا ہے۔ جو کچھ آنکھوں سے دیکھ اور دل سے محسوس کیا اس کو بیان کر دیا۔ حسن و عشق کے سربستہ رازوں کو جس حسن دلکشی اور خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے وہ مجاز کا خاص حصہ ہے۔ اس لیے اسے شاعر شہر نگاراں کہا جاتا ہے۔ وہ خود کہتے ہیں۔؎

عشق   ہی   عشق   ہے   دنیا   میری

فتنہ   عقل   سے  بیزار    ہوں  میں

چھیڑتی  ہے جسے مضراب   الم

ساز  فطرت   کا  وہی  تارہوں میں

مجاز نے حسن و عشق کے خیالی پیکر نہیں اتارے تھے۔ بلکہ اس نے اپنی شاعری میں اسی دنیا آب گل کو زندہ تصویروں میں پیش کیا۔ جن میں رعنائی ہے۔ جذبات کی فراوانی ہے۔ اور پاکیزگی کا عنصر نمایاں ہے۔ انہوں نے ایک نظم " کس سے محبت  ہے" میں اس کی وضاحت کر دی ہے۔ اس کی ایک اور نظم "نورا" کے یہ اشعار دیکھیے؎

وہ  نو  خیز  نورا   وہ    ایک     بنت  مریم

وہ  مخمور  آنکھیں ، وہ گیسوئے    یہ   خم

وہ      ارض     کلیسا     کی     ماہ     پارا

وہ   دیر   و  حرم    کے   لیے   اک  شرارا

وہ ایک نرس تھی چارہ  گر جس کو  کہیے

نداوائے    درد   جگر    جس   کو     کہیے

وہ آنکھیں  کہ   ساغر  چھلکتے  ہوئے سے

وہ عارض  کے شعلے  بھڑکتے ہوئے سے

مہک  گیسوؤں   سے    چلی   آرہی    تھی

مرے  ہر نفس   میں    بسی  جا  رہی  تھی

مجاز کے کلام کی بڑی خاصیت اس کی غنائیت ہے۔ انھوں نے غنائیت کے باب میں جزبات و احساسات کی ترجمانی بڑی وسعت اور گہرائی کے ساتھ کی ہےجس میں سرمستی ہے، سر خوشی  ہے اور وجدانی کیفیت ہے۔ بقول ڈاکٹر  ابو اللیث  صدیقی  اس میں  " آتش نوائی" کا عنصر بھی  شامل ہو گیا۔ یہ غنائیت ان کی غزلوں میں نہیں بلکہ ان کی نظموں میں بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ ان کی مشہور نظم " آوارہ " اور آہنگ نو" میں یہ خصوصیت عروج پر ہے۔ اور یہی ایسی چیز ہے جس نے اس کے کلام کو بہت مقبول بنا دیا۔

مجاز کی شاعری میں سوزوگداز کی کیفیت حد درجہ پائی جاتی ہے۔ دراصل عشق میں حرما نصیبی ناامیدی اور ناکامی مقدر ہے۔ اور یہی چیزیں حسرت و یاس اور سوزو گداز کو جنم دیتی ہیں اور درد مند لب و لہجہ کا باعث بنتی ہیں۔ اثرو تاثیر کی کیفیت بھی اسی سے پیدا ہوتی ہے اور مجاز کا عشق چونکہ مجازی ہے اس لیے اس نے عشق میں ناکامی کو کچھ زیادہ ہی محسوس کیا ہے۔ اس کا دل ہر طرف مضطرب و بے چین رہتا ہے۔ پھر اس غم نے وحشت کی شکل اختیار کر لی۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس نے اپنے کلام کو وحشت وبے آوارگی سے محفوظ رکھا البتہ سوزو گداز کی کیفیت اس کے کلام میں بہت زیادہ آگئی۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل جب اس کے اشعار زیر لب گنگتاتی ہے تو دل کی گہرائیوں میں اس کا غم اترتا چلا جاتا ہے۔ اس کی نظم " آوارہ " اور "اعتراف" اسی کیفیت کی ترجمان ہیں۔

 



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160