”جب وقت آئےگا تو وہ بھی مل جائےگی۔“ لڑکی کا انداز گفتگو مبہم تھا مگر لہجےسےبڑی استقامت جھلک رہی تھی۔
تینوں بڑی بہنیں چھوٹی بہن کی بےسروپا باتوں سےبیزار تھیں۔ اس لئےجھنجھلا کر بولیں۔ ”یہ ہم سب کاوقت برباد کر رہی ہی۔ آپ اسےیہاں سےلےجائیں۔“
”یہ لڑکی بڑےکام کی ہی۔ میں اسےلےکر ہی جائوں گا۔“ تاجر عتیق نےتینوں بہنوں کومخاطب کرتےہوئےکہا۔۔۔۔ اور پھر ایک مخصوص رقم ان کےحوالےکر دی۔
”چلو!لڑکی“ تاجر نےچھوٹی بہن سےکہا۔ ”اب تم میری ملکیت ہو۔“
لڑکی نےاپنی بہنوں کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھےمگر ہونٹوں پر حرف شکایت نہیں تھا۔ وہ تاجر عتیق کےساتھ چپ چاپ چلی گئی۔ اس نےکئی بار مڑ کر دیکھا۔ لڑکی کی آنکھوں میں بس ایک ہی سوال تھا۔
”کیا تم نےچند روٹیوں کیلئےاپنی چھوٹی بہن کو فروخت کر دیا ہی“۔
تینوں بہنوں نےکوئی جواب نہیں دیا۔ انہیں بھوک کی عفریت سےنجات مل گئی تھی اور وہ تاجر کےدیئےہوئےسکےگننےمیں مصروف تھیں۔ پھر انہیں اپنی چھوٹی بہن کی آنکھوں میں لرزنےوالی معصوم حسرتیں اور کانپتےہوئےسوالات کس طرح نظر آتی؟ آخر لڑکی نظروں سےاوجھل ہو گئی اور ضرورت کےبےرحم ہاتھ نےخونی رشتوں کو جدا کردیا۔
نوعمر ہونےکےباوجود وہ لڑکی انتہائی مشقت اور ذمہ داری کےساتھ اپنا کام پورا کرتی اور مالک کو کسی قسم کی شکایت کا موقع نہ دیتی۔ یہاں تک کہ اسی عالم میں کئی سال گزر گئی۔ اب اس لڑکی کی عمر بارہ تیرہ سال کےقریب تھی۔ جیسےجیسےعمر بڑھتی جارہی تھی‘ لڑکی کےذوق عبادت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ گھر کا کام کرنےکےبعد وہ رات رات بھر عبادت میں مصروف رہتی۔ پھر صبح ہوتےہی اپنےآقا کی خوشنودی حاصل کرنےکیلئےگھر کےکاموں میں مشغول ہو جاتی۔ آخر شدید محنت نےاس معصوم جان کوتھکا ڈالا۔
”کیا تو بیمارہی؟“ لڑکی کےچہرےپر تھکن کےآثار دیکھ کر ایک دن مالک نےپوچھا۔
لڑکی نےنفی میں آقا کی بات کا جواب دیتےہوئےکہا۔ ”کیا میں اپنےفرائض کی ادائیگی میں کسی کوتاہی کی مرتکب ہو رہی ہوں۔“
مالک نےاس کےکام کی تعریف کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ اپنی صحت کا خیال رکھی۔
لڑکی نےآقا کا حکم سنا اور سر جھکا دیا مگر اس کےمعمولات میں کوئی کمی نہ آئی۔ وہ اجالےمیں دنیاوی مالک کی خدمت انجام دیتی اور اندھیرےمیںمالک حقیقی کےسامنےسجدہ ریز ہو جاتی۔
گلدستہءاولیاء(part 2)
Posted on at