(part 2)عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

Posted on at


قول و فعل کی مطابقت کو لے کر جب مسلمان کار راز زندگی میں نکلے تو  انھیں دیکھ کر لوگ اسلام لاتے چلے گئے ۔ تلواراٹھانے کی نوبت کہیں کہیں اور کبھی کبھی آئی ۔ اصل شے سیرت کی یہی عظمت تھی  جو پتھروں کے سینوں کو بھی گداز کر تی چلی گئی۔ آج بھی تاریخ ان کا نام احترام سے لیتی ہے ، آج بھی جب ان با عمل انسانوں کو نام آتا ہے تو اکڑی ہو ئی گر دنیں ان کو حضور میں عقیدت سے جھک جاتی ہیں ۔


وقت گزرتا جا رہا ہے ، تاریخ تیزی سے مرتب ہو رہی ہے ، زمانہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے ، تاریخ ، وقت اور زمانےکاقافلہ اسی کو ساتھ لے کر جاتا ہے جو اس کا ساتھ دیتا ہے۔ وقت کسی کے لیے نہ اپنا انداز  بدلتا ہے نہ چلن۔ جو قوم وقت کا ساتھ دیتی ہے ، حال کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے ۔ یہ کارواں اسے ساتھ لے جاتا ہے ، جو قوم تن آسان ہو تی ہے جس کا دامن حرکت و عمل سے خالی سے ہوتا ہے  اور وہ وقت کی ضرورتوں کو پورا نہیں کرتی تو زمانہ اسے روندتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے ۔ اور تاریخ کو اس قوم کا ماتم کرنے کی فر صت بھی نہیں ہوتی ۔


یہ کاروان      ہستی ہے تیز     گام ایسا


قومیں کچل گئی ہیں جس کی رواروی میں


ہمارا فرض ہے کہ ہم وقت کے تیور کو جانچیں ، ہوا کا رخ پہچانیں ، تاریخ کی روح کو سمجھیں اور گھٹا کے اشاروں کو دیکھیں اور وقت کے اس تناظر میں اپنی تمام صلاحیتیں با مقصد جدو جہد کے لیے وقف کر دیں ۔ با مقصد کو شش سعادت ہے اور اس کوشش میں جان ہار دینا شہادت۔ آج اس امر کی ضرورت ہے کہ ہمارے دل سوزش عشق سے لبریز ہوں ۔ یہی تڑپ ہمیں منزل تک لے جائے گی اور منزل کے راستوں کو ہمارے لیے آسان کر دے گی ۔ جو ش و جذبہ ہم رکاب ہو تو راستے کے کانٹے پھول اور پہاڑ کنکر ہو جاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے لیے صحرا آبادیاں ہوتے ہیں اور سمندر راستے ۔ عزت کی زندگی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اپنے عمل کو اسی خلوص سے لبریز کریں جو ہمارے آباؤ اجداد کا امتیاز تھا۔ عمل کا خلوص ہی وہ نعمت ہے  جس سے ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے ۔ یاد رہے کہ ایمان کے پودے کو حسن عمل کا پانی نہ دیا تو وہ سو کھ جایا کرتا ہے  اور سو کھے ہو ئے درخت کبھی بارور نہیں ہوتے ۔


الغرض اپنی اور پاکستان کی بقا لے لیے عمل ، کوشش اور جذبے کی ضرورت ہے اگر ہم تن آسان بنے رہے تو راستے تاریخ اور منزل دور ہو جائے گی ۔ اگر ہم نے سعی اور کوشش کو شعار بنائے رکھا تو ہمارا  حال ایک تابناک مستقبل کا آئینہ دار بن جائے گا۔ ہر بات عمل کو آواز دیتی ہے ۔ ہمارے سامنے اسلاف کی سیرت کے خو بصورت نقش ہیں  اور یہ نقوش ایک ایسی مشعل ہیں جس سے ہم زندگیوں کو اجال سکتے ہیں ۔ اقبال کا یہ شعر ہمارے حال کی بے بسی  اور ماضی کے حسن کی کسی قدر دلگداز تصویر پیش  کرتا ہے۔


تجھے آبا  سے  اپنے  کوئی نسبت ہو نہیں سکتی


کہ تو گفتار، وہ کردار ، تو ثابت وہ سیارا



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160