مختصر یہ کہ محمد صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم زندگی میں مختلف مراحل سے گزرے اور بہت سے حالات کا براہ راست تجربہ اور مشاہدہ فرمایا۔
بچپن میں محمد صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم گلہ بان تھے اور اپنے رضاعی والدین کی بھیڑ بکریوں کی دیکھ بھال آپ نے کی اور بعد میں مکہ میں اپنے پڑوسیوں اور خاندان کے بھیڑ بکریوں کی دیکھ بھال کی۔ پیشے کے لحاظ سے آپ ؐ تاجر بن گئے اور اس لحاظ سے کچھ عرصہ کام کیا۔ آپؐ نے تجارت کی غرض سے پڑوسی ممالک کا سفر کیا۔آپ ؐ نے شادی کی، آپؐ کے بچے تھے اور اپنے خاندان کے ساتھ خوشحال زندگی بسر کرتے تھے۔ بعد میں مدینہ میں آپؐ قوم کے سردار بن گئے اور محمد صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف حیثیت سے خدمات انجام دیں جیسے جج، ناظم اعلیٰ اور سپہ سالار وغیرہ۔ اسی طرح آپؐ کو مختلف حیثیت کا وسیع تجربہ حاصل ہوا اور مختلف صورتوں میں انسانی ضرورتوں کا بڑا علم حاصل کیا۔
یہ ہماری لیے بہت بڑی خوش قسمتی کی بات ہے کہ محمد صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام تجربات کا ریکارڈ ہمارے فائدے کے لیے محفوظ ہے۔ محمد صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اصلی حالت میں قرآن مجید میں محفوظ ہیں اور محمد صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال اور افعال حدیث کی شکل میں محفوظ ہیں۔ آپؐ کی سیرت طیبہ جامع اور انسانی کمزوریوں سے محفوظ ہے اور یہ ہمیں دائیں اور بائیں یعنی نیکی اور بدی دونوں طرفوں سے بچتے ہوئے زندگی کا معتدل راستہ دکھاتی ہے،اس کے علاوہ حضورؐ کی تعلیمات عملی ہیں اور انسان کی تمام ضرووریات کو پورا کرتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر آپؐ کی محبت اور صحابہ کرام کی تعظیم کی زندہ مثال مکمل طور پر محفوظ ہیں اور یہ سب کچھ آئندہ نسلوں کے لوگوں کو متاثر کرتا رہے گا۔ دونوں ذدائع یعنی قرآنی تعلیمات اور حضورؐ کی سیرت طیبہ جن کو ضرورت ہو روشنی اور رہنمائی فراہم کرتی رہے گی اور چاہے وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں۔
آپؐ نے زندگی میں اخلاقی، سماجی اور روحانی شعبوں کی کامیابی کے لیے عملی مثالوںکے ذریعے اعلیٰ نمونے قائم کیے ہیں۔ قرآن مجید محمد صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔" اور آپؐ کردار کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں"۔ اس طرح قرآن کے الفاظ میں آپؐ کی شخصیت اور کردار دوسرے انسانوں سے بہت ارفع اور اعلیٰ ہیں۔ آپؐ میں جامع انسان کی تمام بہترین اور اعلیٰ خوبیاں موجود ہیں۔۔ آپؐ اس ہیرے کی مانند تھے جو تاریک ماحول کو روشن کرتا ہے۔ کسی نے ایک بار آپؐ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ سے آپؐ کے کردار کے پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ"جو کچھ قرآن میں ہے وہ آپؐ کا کردار تھا"۔ اس کا مطلب ہے کہ نہ صرف آپؐ نے لوگوں کو زبانی قرآن کا پیغام دیا بلکہ خود اس پر عمل بھی کیا اور آپؐ خود قرآن کا عملی اور جامع نمونہ تھے۔ قرآن جس بات کے کرنے کاحکم دیتا ہے حضور ؐ نے وہ کیا اور جس بات سے دور رہنے کو کہا اپؐ دوسروں کی نسبت ذیادہ اس کام سے باز رہے۔