قرآن مجید فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے ایک ادبی شاہکار ہے۔ اس میں پہاڑوں کا جلال، سمندروں کا طلاطم، دریاؤں کی روانی بجلی کی تڑپ، سحر آفرینی اور جواہرات کی مرصع کاری ہے۔ عربوں کو خطابت اور شعرو شاعری پر بڑا فخر اور باز تھا۔ اور وہ اپنے مقابلے میں دوسروں ملکوں کو عجم یعنی گونگا کہہ کر پکارتے تھے۔ لیکن جب قرآن نازل ہوا تو عرب کا بڑا عالم، مقرر ، خطیب یا عالم لاکھ کوشش کے باوجود اس جیسا کلام پیش نہ کر سکا۔ قرآن کریم نے چیلنج دیا کہ اس جیسی ایک صورت بنا لاؤ۔ لیکن آج تک کوئی شخص اس چیلنج کا جواب نہیں دے سکتا آخر یہ کیسے ممکن ہے؟
قرآن مجید خالق کائنات کا کلام ہے۔ ظاہر ہے مخلوق اپنے خالق کا کس طرح مقابلہ کر سکتی ہے۔ جب سورۃ الکوثر نازل ہوئی تو حضرت علی المرتضٰی نے اسے لکھ کر کعبہ کے دیوار پر آویزاں کر دیا۔ ایک بہت بڑے شاعر لبید نے اسے دیکھا تو دریائے حیرت میں گم ہو کر رہ گیا۔ اور وہیں دیوار پر لکھ دیا " ماھذا کلام البشر " یعنی یہ کسی انسان کا کلام نہیں ۔
پہلی آسمانی کتابوں میں سے کچھ کتابیں محظ اخلاقی تعلیمات پر مشتمل تھیں ۔ بعض صرف مناجات اور دعاؤں کا مجموعہ تھیں۔ کچھ صرف فقہی مسائل کا مجموعہ تھیں۔ بعض میں صرف عقائد کا بیان تھا۔ اور بعض صرف تاریخی واقعات کا مجموعہ تھیں۔ لیکن قرآن کریم ایک ایسی جامع کتاب ہے جس میں ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں اخلاقی تعلیمات بھی ہیں اور عقائد و اعمال کا بیان بھی ہے۔
قرآن کریم نے انسانیت کو اس کا صحیح مقام بخشا۔ بنی نوع انسان کو امن و سلامتی کا پیغام اور حریت و مساوات کا درس دیا۔ کالے اور گورے اور عربی اور عجمی کا فرق ختم کر دیا۔ حسب و نسب کی بنا پر معاشرے میں قائم شدہ امتیازات کو ختم کر کے شرافت و عظمت کی بنیاد صرف تقوٰی اور خوف خدا پر رکھی۔ قرآن مجید نے عدل اور بے لاگ انصاف کا درس دیا۔ صرف اپنوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ غیروں اور دشمنوں کے ساتھ بھی۔
حضرت عمر فاروق کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہ اسی کتاب ہدایت کا اثر ہے۔ جس نے حضرت عمر کی زندگی کو یکسر بدل دیا۔ وہ حضرت عمر جو اپنے باپ خطاب کے اونٹ چرایا کرتا تھا۔ اور ان کے باپ انھیں جھڑکا کرتے تھے۔ اور یہ قوت و عزم میں قریش کے متوسط لوگوں میں سے تھے۔ یہ وہی عمر ہیں جو اسلام قبول کرنے کے بعد تمام عالم کو اپنی عظمت و صلاحیت سے متحیر کر دیتے ہیں۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:-
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر