مولانا ظفر علی خان کی شاعری کی ایک اور خصوصیت ظنز و مزاح بالخصوص طنز ہے۔ جس کی کاٹ نہایت تیز اور گہری ہے۔ ان کی طنزیات کی حدود بہت وسیع ہے۔ مختلف افراد ، جماعتیں، ادارے اور تحریکیں اس کی لپیٹ میں آکر مولانا طفر علی خان کے طنز کا نشانہ بنی ہیں۔ ہندوستان کا بڑے سے بڑا لیڈر ان کے طنز سے نہیں بچ سکا۔ اور طنز کرتے ہوئے بعض اوقات ان کے جذبت میں اتنی شدت آجاتی ہے کہ وہ فقرہ بازی اور پبھتی پر اتر آتے ہیں۔ جب تک انھیں دوسرے مسلم رہنماؤں کی طرح گاندھی جی سے اور کانگریس سے حسن ظن تھا تو ان کے جذبات یہ تھے۔؎
ہے اس عقیدے پر ہند قائم کہ رام ھی ہے رحیم بھی ہے
ادھر لام میم ہے تو ادھر الف واؤ میم بھی ہے
وہ پائی پائی کا ایک دن تم سے دیکھ لینا حساب لے گا
لنگوٹی والا ہمارا مہاتما گاندھی بھی، منیم بھی ہے
مگر جب اس مہاتما کی حقیقت مہاتمائیت ان کی نظروں پر آشکار ہوئی تو انھوں نے اسی مہاتما اور منیم گاندھی کے متعلق لکھا؎
بھارت میں بھلائیں دو ہی توہیں، اک ساورکر،اک گاندھی ہے
اک جھوٹ کا چلتا جھکڑ ہے ، اک مکر کی اٹھتی آندھی ہے
لب پر ہے صدا آزادی کی اور دل میں شور غلامی کا
اکھڑی تھی ہواانگریزوں کی، ان دونوں نے ملکر باندھی ہے
اس حریفانہ چشمک میں مولانا ظفر علی خان بعض اوقات سوقیانہ الفاظ اور گالیوں تک کو شعروں میں ایسی خوبصورتی کے ساتھ نگینوں کی طرح جڑ دیتے ہیں کہ ان کی قادر الکلامی اپنے پرائے ہر ایک سے اپنا لوہا منواتے بغیر ہیں رہتی۔ ایک ہندو اخبار کے ایڈیٹر لالہ نانک چند ناز نے ایک بار ایک نہایت دل آزاد نظم لکھی جس میں مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ ہندوستان سے نکل کر عرب چلے جائیں اور وہاں کی ریت پھانکیں۔ ظفر علی خان نے اس کا جواب بھر پور الفاظ میں دیا۔
تہذیب نو کے منہ پر ایک تھپڑ رسید کر
جو اس حرام زادی کا حلیہ بگاڑ دے
اس قسم کی مثالیں ان کی بہت سی دیگر نظموں میں ملتی ہیں ۔ جن میں سے ان کی نظم " دم مست قلندر دھر رگڑا" خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔
مولانا ظفرعلی خان نے ایسی ایسی سنگلاخ زمینوں میں شعر کہے ہیں کہ اپنے زور قلم سے انھیں پانی پانی کر دیا ہے۔ دقیق سے دقیق مضامین انہوں نے اس طرح باندھے ہیں کہ پڑھنے سننے والا دھنگ رہ جاتا ہے۔ نئے نئے اور مشکل قافیے نبھانے میں اکبر الہٰ آبادی کے بعد وہ سب سے مشاق شاعر ہیں۔
نئے نئے قافیے باندھنا ، مشکل ترین اور سنگلاخ زمینوں میں شعر کہنا ان کے لیے معمولی بات تھی۔ ایک بار انھوں نے کہا؎
زندگانی کے لطف دو ہی تو ہیں صبع کی چائے، شام کا حقہ
اس کو کہتے ہیں سلیسل کی موج اس کو کہتے ہیں نو کا بقہ
اکبرالہٰ آبادی کا ایک شعر ہے؎
پکا کر پیس لیں دو روٹیاں، تھوڑے سے جو لانا
ہمارا کیا ہے بھائی نہ مسٹر ہیں نہ مولانا
اور مولانا ظفر علی خان نے اس ضمن میں ایک نہیں دو نہیں بلکہ پورے نو شعر کہے ہیں۔ اپنی اس طباعی پر انھیں خود بھی ناز تھا۔ خود کہتے ہیں۔؎
نوا سنجان دہلی کا صدائے عام دیتا ہوں
کہ داد فکر دیں ان قافیوں میں ان ردیفوں میں
مولانا ظفر علی خان کا ایک بڑا وصف ان کی بدیہہ گوئی ہے۔ وہ ماحول حالات یا کسی واقعہ کے رد عمل کے طور ایک ہی نشست میں بڑی تیزی اور روانی سے خاصی نظمیں کہہ دیتے ہیں۔ بقول چراغ حسن حسرت " مولانا ظفر علی خان حقے کے ایک کش کے ساتھ ایک شعر کہہ ڈالتے تھے۔ اگر بندش پر غور کرو تو معلوم ہوتا ہے کہ کل کا بنا ہوا شعر ہے، ہاتھ کا لکھا ہوا نہیں۔ ان کی اکثر نظمیں بہت تھوڑے وقت میں کہی گئی ہیں۔ شاید ہی کوئی ںظم ایسی ہو جو انھوں نے گھنٹہ دو گھنٹہ میں کہی ہو ورنہ عام طور پر ایک نظم پر ایک آدھ گھنٹے سے ذائد وقت صرف نہیں ہوتا تھا۔