محسن کاکوری کی شاعری میں فصاحت و بلاغت کا کمال پورے عروف پر نظر آتا ہے۔ ان کے اشعار میں ایک طرف فصاحت کی آن بان ہے تو دوسری طرف بلاغت کی شان ہے۔ ایک طرف ان کی زبان ہے کہ اسے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس سے ذیادہ فصیح کوئی زبان نہیں لکھی جاسکتی، دوسری طرف مفہوم مطلب کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس مفہوم کو اتنے کم سے کم الفاظ میں اس سے زیادہ عمدگی اور خوبصورتی کے ساتھ ادا نہیں کیا جا سکتا؎
گل خوش رنگ رسول مدنیؐ عربی
زیب دامان ابد ، طرہ دستار ازل
نہ کوئی اس کامشابہ ہے، نہ ہمسر نہ نظیر
نہ کوئی اس کا مماثل ، نہ مقابل، نہ بدل
محسن کاکوروی کے کلام کا ایک بڑا وصف جدت بیان ہے۔ یہ وصف ان کے مشہور قصیدہ " مدح خیر المر سلین" سے بطور خاص ظاہر ہے۔ 143 اشعار پر مشتمل یہ قصیدہ لکھنوی صناعیوں اور جذبات محبت کے خلوص کی بدولت ان کی سب سے مشہور نعتیہ نظم ہے۔ اس میں ایک طرف تو قصیدے کے تمام لوازم موجود ہیں، دوسری طرف نعت کا گداز ہے۔ جس نے اس کے تاثیر کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے۔ اس نعتیہ قصیدے کی تشبیب کا آغاز بلاغت کا ہی نہیں ، محسن کا کوروی کی شدت بیاں کا بھی شاہکار ہے۔ وہ تشبیب میں برصغیر کا ہندوانہ ماحول پیش کر کے پھر گریز کی طرف آتے ہیں۔ا ور اسے اسلامی ماحول میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ اس طرح دنیا میں شرک اور کفر کے غلبے کے بعد خیر المرسلین کی بعثت مبارک سے گمراہی کے بادل چھٹ گئے اور ابر رحمت سے ساری خدائی سیراب اور فیض یاب ہوگئی۔ بیان کی جدت کا یہی رنگ ان کے کلام میں جا بجا نظر آتا ہے۔
محسن کاکوروی کے کلام کی ایک اور نمائندہ خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اشعار میں تلمیحات کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ اور اپنے اشعار میں تلمیحات کے ڈھیر کے ڈھیر لگاتے جاتے ہیں۔ اور ان کی ہر تلمیع مرصع کا خوبصورت نمونہ نظر آتی ہے۔ یہ تلمیحات قرآن، احادیث، اسلامی روایات و عقائد، فلسفہ وحدت الوجود، اور تصوف کے علاوہ مقامی غیر مسلم معاشرے کے عقائد، رسم و رواج، عبادات وغیرہ سے لی گئی ہیں اور جہاں جہاں بھی استعمال ہوئی ہیں، بلاغت کی شان دکھاتی نظر آتی ہیں۔
الغرض انھوں نے اپنی شاعری اور شاعرانہ خصوصیات کو محسن انسانیت، سرکار دوعالمؐ سید المرسلینؐ کی مدحت سرائی کے لیے وقف کر دیا ہے اور اپنی تمام تر فن کارانہ خصوصیات سے کام لیا ہے تو سید الانبیاءؐ کی ثناء خوانی کا کام لیا ہے۔ انھیں فخر ہے تو اس سعادت پر فخر ہے کہ ان کے قلم سرور کائناتؐ کا مدحت سرا ہے اور انھیں تمنا ہے کہ تو صرف یہ کہ ان کا کلام سوائے سرکار دو عالمؐ کی ثنا خوانی کے اور کسی مضمون کا آئینہ دار نہ ہو؎
سب سے اعلیٰ تیری سرکار ہے، سب سے افضل
میرے ایمان مفصل کا یہی ہے مجمل
ہے تمنا، کہ رہے تیری نعت سے خالی
نہ مرا شعر ، نہ قطعہ، نہ قصیدہ ، نہ غزل