جوش ملیح آبادی حسن و شباب کے شاعر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کے لفظ لفظ سے کیف و سرمستی ٹپکتی ہے۔ رند ی و سرمستی ، رنگینی و رعنائی ان کی شاعری کے خاص جزو ہیں خاص طور پر رباعیات میں یہ چیز بہت نمایاں ہے " انا اور زندگی و موت" کا یہ بند دیکھیے:
ہر نفس موتی پروتی پھول برساتی ہوئی
خیمہ زربفت میں پازیب جھنکاتی ہوئی
مرکیاں لیتی، ٹھمکتی، ناچتی ، گاتی ہوئی
دوڑھتی ، بڑھتی ، ہمکتی ، جھومتی ، چھاتی ہوئی
اک سنہری تان کی زنجیر ، بل کھاتی ہوئی
ایک انگڑائی دھنک کے پل پر لہراتی ہوئی
جوش لفظوں کے جادو گر ہیں۔ ان کے آگے الفاظ دست بستہ کھڑے رہتے ہیں۔ جن کو موقع و محل کی مناسبت سے باندگتے جاتے ہیں۔ پے درپے الفاظ استعمال کرتے چلے جاتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ کا بہت بڑا خزانہ ان کے قبضہ قدرت میں ہےجو ختم ہونے کا نام تک نہیں لیتا۔ مثال کے طور پر "ماتم آزادی " کا ایک بند ملاحظہ فرمائے جس کے ہر مصرعے میں خاص الفاظ کا اہتمام کیا ہے۔ پہلے مصرعے میں "س" کی تکرار ہے دوسرے مصرعے میں "ب" تیسرے میں "ج " کی اور چوتھے مصرعے میں "گ" کی تکرار ہے:
سرد سہی نہ ساز نہ سنبل نہ سبزہ زار
بلبل نہ باغباں نہ بہاراں نہ برگ و بار
جیحوں نہ جام جم نہ جوانی نہ جوئیار
گلشن نہ گلبدن نہ گلابی نہ گلزار
اے بوئے گل نہ باد صبا مانگتے ہیں لوگ
وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
جوش ملیح آبادی کو زباں اور بیاں دونوں پر بڑی قدرت حاصل ہے۔ اور اس کا اعتراف ہر ایک نے کیا ہے۔ ان کے پاس اگر الفاظ کا وسیع ذخیرہ ہے تو وہ اسے استعمال کرنے کی بھی قدرت رکھتے ہیں۔ وہ جلال و جمال دونوں صفات سے متصف ہیں۔ اکثر ان کے یہاں گھن گرج طمطراق ہے لیکن جب وہ نرم نازک، شیریں و ملائم لب و لہجہ سے کام لیتے ہیں تو زباں کے ساتھ ساتھ قوت بیاں کا بھی قائل ہونا پڑتا ہے۔ "گنگا کے گھاٹ پت" کے یہ شعر دیکھیے:
بڑھائے سرخی عارض ہوائے صحرا سے
نہایا کون چلا آ رہا ہے گنگا سے
لبوں پہ مہر خموشی، خموشیوں میں خطاب
کمر میں لوچ، جبیں پر دمک، نظر میں شراب
دراز زلف میں جادو، سیاہ انکھ میں مدھ
نسیم صبع بنارس ، ہلال شام اودھ
آل احمد جوش ملیح آبادی کی عظمت یوں بیاں کرتے ہیں:"اقبال کے بعد شاید یہی غزل کو نظم کا تسلسل اور کائناتی لباس اور نظم کو غزل کی رنگینی اور شرینی بخشنے میں کامیاب ہوئے ہیں"۔
مشہور شاعر مصطفیٰ زیدی کہتے ہیں:
"ہمارے تنگ دائرہ علم کو جوش صاحب کی شاعری نے حیات و کائنات کی بے پناہ دولت اور بے نام پہلوؤں کی وسعتیں دکھائی ہیں۔"