اسرارالحق مجاز ایک رومانی شاعر ہیں۔ مگر بغاوت پر آمادہ وہ ایک طرف حسن و عشق کا پرستار ہے تو دوسری طرف سیاسی، سماجی اور معاشرتی پابندیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والا ہے۔ اس کا سینہ انقلاب آفریں خیالات سے معمور تھا اسی نے بغاوت پر اکسایا ہے چنانچہ وہ معاشرتی اور تہذیبی اقدار سے بغاوت کرتا ہے اور فرار حاصل کرنے کے درپے ہیں وہ "نوجوان خاتون سے" مخاطب ہو کر کہتا ہے:
حجاب فتنہ پرور اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا
خود اپنے حسن کو پردہ بنا لیتی تو اچھا تھا
تیری نیچی نظر خود تیری عصمت کی محافظ ہے
تو اس نشتر کی تیزی آزما لیتی تو اچھا تھا
تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے ایک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
مجاز کی شاعری میں حریت اور انقلاب کی فکر غالب ہے۔ وہ انقلاب کا مطرب ہے۔ اس کے یہاں انقلاب ایک ایسا نغمہ ہے جس میں رنگینی ہے اور اثرو تاثیر کی کیفیت ہے۔ وہ آزادی کا علمبردار ہے۔ غلامی کی زنجیروں کو توڑ پھینکنا چاہتا ہے، سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنے کے درپے ہے۔جوش ملیح آبادی اس کے معنوی استاد ہیں، اس کے یہاں جذباتیت، گھن گرج اور لفظوں کی جھنکار سب کچھ جوش ہی کے اثر سے ہے۔ وہ بظاہر جنس الفت کا طلب گار ہے مگر حقیقت میں شاعر بیدار ہے۔ اس نے سرمایہ دارانہ نظام کی درندگی کا عذاب دیکھا اسی لیے سرمایہ داری پر جو نظم لکھی ہے اس میں دل کھول کر اس کے عیوب بیان کیےہیں۔ اس کی ہلاکت خیزی، ظلم و استبداد کو خوب خوب بیان کیا ہے۔ اس کی نظم " آوارہ " ہو کہ "طفلی کا خواب"، " جلا وطن کی واپسی " ہو کہ "انقلاب" یا "سرمایہ داری" ہوکہ "آہنگ نو" ہو ایک بڑے جذبے کے ساتھ اپنے انقلاب آفرین خیالات کو بیان کیا ہے۔ وہ نوجوان سے اس طرح مخاطب ہوتے ہیں؎
جلالی آتش و برق سحاب پیدا کر
اجل بھی کانپ اٹھے وہ شباب پیدا کر
بہت لطیف ہے اے دوست تیغ کا بوسہ
یہی ہے جان جہاں میں اس میں آب پیدا کر
ترا شباب امانت ہے ساری دنیا کی
تو خارزا ر جہاں میں گلاب پیدا کر
تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر
جو ہو سکے تو ابھی انقلاب پیدا کر
اسرارالحق مجاز کی شاعری میں رمزیت، اشاریت، داخلیت کے ساتھ ساتھ جذباتی لب و لہجہ اور وجدانی کیفیت پائی جاتی ہے جس سے نوجوان جسم میں سنسناہٹ دوڑ جاتی ہے اور آدمی جذباتی ردعمل کا شکار ہوجاتا ہے لیکن یہ سب اس کے شیریں لیکن جذباتی لب و لہجہ کے سبب ہے۔ اس کے یہاں مناسب و موزوں الفاظ، تشبیہات و استعارات کا حسن ، لطافت کا عنصر اور دیگر شعری محاسن بھی ہیں اور انہیں سب چیزوں نے مل کر اس کے اسلوب کو دوسروں سے الگ کر دیا ہے۔سادگی و لطافت کے چند شعر دیکھیے:؎
سارا عالم گوش بر آواز ہے
آج کن ہاتھوں میں دل ساز ہے
حسن کو بے حجاب ہونا تھا
شوق کو کامیاب ہونا تھا
تیرے جلوں میں گھر گیا آخر
ذرے کو آفتاب ہونا تھا
ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی مجاز کے بارے میں کہتے ہیں کہ " مجاز اردو شعر و ادب کے آبرو تھے۔ انھوں نے اپنے خون جگر سے چمنستان ادب کی آبیاری کی۔ اسے سرسبزو شاداب کیا۔ اس کو تازگی ، رعنائی ، حسن و زیبائی، رنگت اور خوشبو عطا کی"۔