گلدستہءاولیاء(part 3)

Posted on at


ایک دن اتفاق سےنصف شب کےقریب آقا کی آنکھ کھل گئی۔ وہ اپنےکمرےسےنکل کر ٹہلنےلگا۔ اچانک اس کی نظر کنیز کی کوٹھڑی پرپڑی۔ وہاں چراغ جل رہا تھا۔
”یہ کنیز ابھی تک جاگ رہی ہی؟“ آقا بڑی حیرت کےساتھ کنیز کےجاگنےکا سبب جاننےکیلئےکوٹھڑی کی طرف بڑھا۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ مالک دبےقدموں اندر داخل ہوا۔ اب اس کی آنکھوں کےسامنےایک ناقابل یقین منظر تھا۔ کنیز سجدےکی حالت میں تھی اور دبی دبی سسکیاں ابھر رہی تھیں۔ مالک کی حیرت میںکچھ اور اضافہ ہو گیا۔ وہ آہستہ آہستہ آگےبڑھا۔ پھر اس نےکان لگا کر سنا۔ کنیز انتہائی رقت آمیز لہجےمیں دعامانگ رہی تھی۔
”اےاللہ! تو میری مجبوریوں سےخوب واقف ہی۔ گھر کا کام کاج مجھےتیری طرف آنےسےروکتا ہی۔ تو مجھےاپنی عبادت کیلئےپکارتا ہےمگر میں جب تک تیری بارگاہ میں حاضر ہوتی ہوں‘ نمازوں کا وقت گزر جاتا ہی۔ اس لئےمیری معذرت قبول فرما لےاورمیرےگناہوں کو معاف کردی۔“
مالک نےکنیز کی گریہ و زاری سنی تو خوفِ خدا سےلرزنےلگا۔ روایت ہےکہ اس واقعےسےپہلےتاجر عتیق ایک ظالم شخص تھا۔ اپنےغلاموں اور کنیزوں سےبےپناہ مشقت لیتا تھا اور انہیں پیٹ بھر کر کھانا تک نہیں دیتا تھا۔ آج رات ایک کنیز کو اس طرح سجدہ ریز دیکھا تو پتھر دل پگھل گیا اور اسےاپنےماضی پر ندامت ہونےلگی۔ الٹےقدموں واپس چلا آیا اور رات کا باقی حصہ جاگ کر گزار دیا۔ پھر صبح ہوتےہی کنیز کی کوٹھری میں پہنچا اور کہنےلگا۔
”آج سےتم آزاد ہو‘جہاں چاہو چلی جائو۔“
”مگر میں تمہاری دی ہوئی قیمت ادا نہیں کر سکتی۔“ کنیز نےحیران ہو کر کہا۔
”میں تم سےکوئی قیمت نہیںمانگتا مگر ایک چیز کا سوال کرتا ہوں۔“ تاجر عتیق کےلہجےسےعاجزی کا اظہار ہو رہا تھا۔ ”میری طرف سےکی جانےوالی تمام زیادتیوں کو اس ذات کےصدقےمیں معاف کر دو جس کی عبادت تم راتوں کی تنہائی میں چھپ کر کرتی ہو۔“
”میں نےتمہیں معاف کیا۔ میرا مالک تمہیں ہدایت دی“ یہ کہہ کرکنیز چلی گئی۔
یہ معصوم اور یتیم بچی اور شب بیدار کنیز مشہور عارفہ حضرت رابعہ بصری تھیں۔۔

گلدستہءاولیاء



About the author

160