مولانا ظفر علی خان کی شاعری کا ایک اہم ترین وصف ان کا جذبہ عشق رسولؐ ہے۔ اسلام سے محبت ان کی رگ و پے میں سمائی ہوئی تھی اور رسول اکرمؐ کا عشق ان کی روح پر چھایا ہوا تھا۔ چنانچہ انھوں نے حمدو نعت کے میدان میں نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ ان کے علاوہ محسن کاکوری اور حالی وغیرہ نے بھی نعتیں لکھی ہیں لیکن مولانا طفر علی خان کی نعت میں عشق رسول کا جذبہ حبس جوش، کیف اور شکوہ کے ساتھ الفاظ کے پردے میں جلوہ گر ہوا ہے۔ اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کے عشق رسولؐ کی کیفیت یہ ہے؎
نماز اچھی ہے روزہ اچھا ، حج اچھا ، زکوٰاۃ اچھی
مگر باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثربؐ کی حرمت پر
خدا شاہد ہے، کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
اور نعت کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں؎
وہ شمع جس ے اجالا کیا چالیس برس تک غاروں میں
اک روز چمکنے والی تھی سب دنیا کے بازاروں میں
جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا
وہ راز ایک کملی والے نے بتا دیا چند اشاروں میں
یہ نعت بھی بڑی پاکیزہ اور قابل قدر ہے؎
دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تم ہی تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تم ہی تو ہو
حقیقت یہ ہے کہ حمد و نعت کے میدان میں ان کا فن اور جذبہ دونوں پاکیزہ اور کامل نظر آتے ہیں ان نعتوں میں ایک طرف حسن عقیدت عروج پر ہے تو دوسری طرف حسن کلام بھی اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔
سیاست سے پٹ کر مولانا ظفر علی خان نے مںاظر اور سراپا وغیرہ پر جو نظمیں لکھی ہیں، وہ ان کی قدرت گویائی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مناظر قدرت اور فطری جذبات کی عکاسی کرنے میں بھی حد درجہ مہارت رکھتے تھے۔ وہ ہر منظر یا واقعہ کی جزئیات تک بیان کر کے اس کی پوری تصویر الفاظ میں کھینچ دیتے ہیں؎
آئی ہے دبے پاؤں صبا اس کو جگانے
انگڑائیاں لیتے ہوئے سبزے کی ادا دیکھ
سورج کا پتا پوچھتی پھرتی ہے خدائی
بادل کو اس انداز سے گردوں پہ گرا دیکھ
غرض مولانا ظفر علی خان کی شاعری ایک ایسے قادرالکام اور بدیہہ گو شاعر کا کلام ہے جس کے خیالات میں سمندروں کا طوفان اور دریاؤں کی سی روانی ہے اور جس نے طوفان آفریں جذبات کو اشعار کے نازک آبگینوں میں بند کر دیا ہے۔ داغ اور حالی تک ان کی زبان اور قدرت زبان کو سراہا ہے اور ان کی قادر الکلامی نے اپنے پرائے سب سے خراج لیا ہے۔
مولانا ظفر علی خان جیسی عظیم شخصیت نے 1956 ء میں انتقال پایا اور وہ کرم آباد میں مدفون ہوئے۔