مجید امجد کے حسن ترجہ کا شاہکار بہت سی نظمیں ہیں جن میں شاخ چنار ( رچرڈ ایلڈرج)، دو چیزیں (ڈونلڈ بیب کوک)، ماڈرن لڑکیاں (فلپ بوتھ)، شناور (رابرٹ فرانس) وہ ایک دن بھی عجیب تھا( فلب مرے) ، وقت ( رچرڈ ایلڈنگٹن) مشہور نظمیں ہیں۔ ایک تو ترجمہ کرنا ویسے ہی ایک مشکل کام ہے کہ اس کے لیے دونوں زبانوں میں مہارت ہونا شرط اول ہے، پھر جب معاملہ نظم کو نظم میں منتقل کرنے کا ہوتو بات اور بھی مشکل ہو جاتی ہے مگر یہ مجید امجد کی مہارت فن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کی ترجمہ شدہ نظمیں ترجمہ سے زیادہ اصل اور طبع زاد نظمیں معلوم ہوتی ہیں۔ اور یہی بات فن ترجمہ کا کمال سمجھی جاتی ہے۔
مجید امجد کے کلام کی ایک خصوصیت رفعت تخیل ہے۔ انہوں نے اپنی زبردست قوت مشاہدہ کو اپنے تخیل کی رفعتوں سے آمیز کر کے وہ نظمیں لکھیں ہیں کہ جن میں مجید امجد کی تخیل کی پروازوں، سوچوں کی بلندیوں اور خیالات و جذبات و احساسات کی رفعتوں کے رنگا رنگ نمونے نظر آتے ہیں۔ مجید امجد کی نظم کے ایک ایک الفاظ کی اوٹ سے ان کے تخیل کی یہ رفعتیں جھانکتی نظر آتی ہیں۔ ان کی نعتیہ مثنوی اگر سرکار دوعالمؐ کے دور سعادت کی جھلکیاں پوری جزئیات کے ساتھ ہمیں دکھاتی ہیں تو "2942 کا جنگی پوسٹر" مستقبل کے ایوانوں میں جھانک کر خلائی جھنگ کا نقشہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔
مجید امجد کے کلام کا ایک وصف داخلی توانائی ہے۔ ان کی غزلیں ان کی نظمیں، ان کے اشعار، ان کے مصرعے ، ان کے الفاظ و تراکیب ، ان کی کہی اور ان کہی باتوں، سب سے مجید امجد کی داخلی تونائی کا اظہار ہوتا ہے۔دردو کرب، غم و آلام ، دکھوں کی برکھا اور تلخیوں اور محرومیوں کا مرقع ہونے کے باوجود ان کے کلام میں ایک توانائی ہے۔ ایسی توانائی جو شاعر کے قلم کو سچ بولنا سکھاتی ہے، جو حق کو حق اور باطل کو باطل کہتی ہے، جو ظلم کو عدل اور ناانصافی کو مہربانی کہنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ یہی توانائی مجید امجد کی شاعری کی جان ہے اور اسی داخلی توانائی سے مجید امجد کی پہچان ہے۔
اپنے کلام کی انہیں گو نا گوں صفات کی بناء پر مجید امجد کی آواز اردو شاعری میں ایک منفرد ، یکتا آواز ہے، زمانہ اگر چہ ان کی اپنی زندگی میں ان کی قدر نہیں کر سکا اور انہیں وہ مقام نہیں مل سکا جو ان کا حق تھا مگر آج نقادان فن ان کے مقام و مرتبے کا اعتراف کر چکے ہیں اور اردو نظم کی روایت میں انھیں فیض احمد فیض اور ن۔م راشد کے ہم پلہ سمجھتے ہیں اور جدید شعراء ان کے نقش قدم پر چلنا اور ان کے رنگ میں لکھنا اپنے لیے باعث فخر جانتے ہیں؎
گہرے سروں میں عرض نوائے حیات کر
سینے پہ ایک درد کی سل رکھ کے بات کر
مجید امجد ایک ترو تازہ اور ایک سرسبزو شاداب شاعر ہیں اقبال کے بعد ابھرنے والے شعراء میں وہ واحد شاعر ہیں جن کی سوچ، زباں اور لہجے کی حد بندیوں کو توڑ کع اپنی انفرادیت کا بھر پور احساس دلایا ہے۔