اگر رشتوں کی اہمیت اور ان کی قدر کو ہم لوگ خود نہی پہچانیں گے تو کل کو ہماری آنے والی نسلیں بھی ان کی قدر و منزلت سے نا آشنا رہ جائیں گی۔اور اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یماری آنے والی نسلیں رشتوں کی حقیقتوں کے ساتھ ساتھ انسانیت سے بھی لا تعلق ہو کر رہ جائیں گے۔کیونکہ جو لوگ اپنے قریبی رشتے دار اور آپس کے اور ان کے تعلقت کو نہی سمجھتے وہ ایک دوسرے انسان کی اہمیت سے کیسے واقف ہو سکتی ہے۔
اگر ہم سب لوگ اپنی اپنی ذندگی پر ہلکی سی نظر بھی ڈالیں تو یہ بات آسانی سے سمجھ آ جائے گی کہ ہم اپنی روز مرہ کی ذندگیی میں اپنے قریبی عزیز اور رشتہ دار، ایسے لوگ جن سے ہمارے اچھے تعلقت ہیں یا وہ لوگ جن سے ہماری سر سری سی دعا سلام ہو،ہیمں کسی بھی ضرورت یا مجبوری کے لئے انکی قربانی، انکے خلوص اور ان کی ہمدردی کی ضرورت پڑتی ہے۔بلکل اسی طرح ہمیں بھی ان کے لئے اس وقت یہ سب کرنا پڑتا ہے جب انھیں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔
اور یہ محبت۔ خلوص، قربانی اور ہمدردی ہیمں اس وقت ہی مل سکتی ہے جب ہمارے اور ان کے دلوں میں رشتوں کی اہمیت اور ان کی قدر ہو۔انسانیت کی بنیاد ہی رشتوں پر رکھی گئی ہے تو ذرا سو چئے کہ جب بنیاد ہی کمزور ہو گی تو عمارت کیسے کھڑی رہ سکتی ہے۔
یہ سب باتیں وہ ہیں جو ہمیں اپنی روز مرہ ذندگی میں آسانی نے نظر آسکتی ہیں۔زیادہ دور جانے کی بلکل بھی ضرورت نہی ہے۔ ہم اپنے ماں باپ کو ہی لے لیتے ہیں۔
ماں باپ کی فکر اور پریشانیاں ان کی اولاد کے پیدا ہوتے ہی شروع ہو جاتی ہیں۔او لاد کے بچپن سے لے کر اس کی جوانی اور بڑھاپے تک وہ اس کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں۔ بچپن میں یہ فکریں کہ اس تعلیم اچھی ہو۔تربیت بہترین ہو۔ان کی اولاد ہر لحاظ سے ٹھیک رہے۔اور جوانی میں یہ فکر یہ کہ وہ کسی اچھی سی جگہ پر نو کری کر لے تا کہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کا ایک ذمہ دار فرد کی حثیت سے سامنے آئے۔
By
Wiki Annex
Blogger :- Filmannex
Previous Blog Posts :- http://www.filmannex.com/blog-posts/wiki-annex