یہ سانس تو چل رہی اہے اب تک مگر مری جان کہاں ہے
نہ جانے کسی خطا ہوئی ہے کہ اک شکنجے میں میری جان ہے
نکل جاۓ گی میری جان آھستہ آھستہ
زبان کٹتی ہے اس نگر میں یہاں جو کوئی زبان کھولے
ہے کون میرا جسے میں بولوں کہ وو میرے حق میں بولے
جہاں بھی جاؤں جسے بھی دیکھوں وہ اس ستم گر کا ترجمان ہے
یہ کسی قربت کی اگ ہے جو وجود میرا جلا رہی ہے
جو مرے حصّے میں رات ائ پراۓ خوب دیکھا رہی ہے
نہ راستہ ہے نہ منزلیں ہیں نہ ہمسفر میرا مجھ پے مہربان ہے
نہ جانے کسی خطا ہوئی ہے کہ اک شکنجے میں میری جان ہے
یہ عشق بچہ ہے ،یہ عشق ممتا ہے ،یہ اشک ہے نہی جو تھمتا
آیا نہی میری زندگی میں واپس جب سے اپنا مانا اسے
نہ کوئی آغاز نہ کوئی انجام یہی میری تو داستان ہے-
(وقاص- پاشا)