PRE-FABRICATED WHEELCHAIR BRIDGE

Posted on at


 


گزشتہ کئی سالوں سے سعودی حکومت نے مسجد حرام اور مسجد نبوی میں توسیع کے جو مختلف شان دار میگا پراجیکٹس مکمل کیے ہیں۔ اُن میں مسجد حرام میں معذور، کم زور اور بوڑھے افراد کے لیے لوہے کا جو عارضی ویل چیئر گول ٹریک (PRE-FABRICATED WHEELCHAIR BRIDGE) بنوایا گیا ہے، اُس نے معذور افراد کے علاوہ بچوں کے لیے بھی عمدہ سہولت مہیا کر دی ہے۔


جب ننھے مُنے بچے اپنے اپنے واکرز میں بیٹھ کر طواف کر رہے ہوتے ہیں تو دیکھنے والوں کے منہ سے بے اختیار سبحان اللہ نکل جاتا ہے ۔خادم حرمین الاشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے اِس ٹریک کو بنوانے میں خصوصی دل چسپی کا اظہار کیا تھا۔ رواں سال حج کے موقع پر اِس دو منزلہ ٹریک کو مکمل طور پر کھول دیا جائے گا۔یہ ٹریک آزمائشی بنیادوں پر عمرہ زائرین کے لیے کھولا جا چکا ہے۔ رمضان المبارک میں انجنیرز نے اس15 فٹ چوڑے ٹریک کی تکنیکی آزمائش کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ مکمل کرلیا ہے ۔ اِس ٹریک کو بن لادن کمپنی نے دبئی کی ایک تعمیراتی فرم کے تعاون سے تیار کیا ہے۔



یہ دنیا بھر میں حجم اور سائز کے لحاظ سے منفرد اور سب سے بڑا ویل چیئر ٹریک ہے۔ ذرائع کے مطابق لوہے کا یہ عارضی ٹریک سال 2015 میں کنکریٹ کے ڈھانچے میں تبدیل ہونا شروع ہو جائے گا اور اِس دوران سعودی حکومت عمرہ زائرین کو 30 دن کی بجائے صرف15 دن کا ویزہ دینے کی پالیسی پر عمل پیراء رہے گی۔ اس پالیسی کی وجہ سے صرف 25 فی صد زائرین ہی عمرہ کے لیے حرم شریف میں داخل ہو سکیں گے۔


حال ہی میں دونوں مقدس مساجد کی انتظامیہ نے ویل چیئر سروس کو مزید فعال بنانے کے لیے ویل چیئر کی تعداد اور ویل چیئر چلانے والے پیشہ ور افراد کی تعداد میں اضافہ بھی کردیا گیا ہے۔ مذکورہ ویل چیئر ٹریک کی حالیہ افادیت اور مستقبل میں مزید افادیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن ویل چیئر کی وجہ سے پیدا ہونے والے درجنوں مسائل کی طرف توجہ دینے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اس میں شک نہیں یہ ٹریک تیار ہو نے سے معذور افراد کی تکالیف میں نمایاں کمی ہوئی ہے لیکن ویل چیئر چلانے والے اور ویل چیئر کے آگے پیدل چلنے والوں زائرین کی تکالیف میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا ہے۔



ویل چیئر کو دھکیلتے ہوئے توازن خراب ہونے سے جہاں معذور افراد کو ویل چیئر پر سے گرنے سے چوٹیں لگتی ہیں تو وہیں اردگرد پیدل چلنے والوں کی ٹانگیں، ٹخنے اور گھٹنے بھی زخمی ہو جاتے ہیں۔ پاؤں پر زخم آنا تو معمول بن چکا ہے۔ اِن تکالیف کی سب سے بڑی اور اصل وجہ حرمین شریفین میں استعمال کی جانے والی وہ ویل چیئرز ہیں، جو میڈیکل ضروریات کو مد نظر رکھ کے ڈیزائن کی ہیں ۔ یہ چیئرز رش اور بھیڑ میں چلانے کے لیے ہوتی ہی نہیں، جس کی وجہ سے یہ ویل چیئرز مسائل پیدا کرتی ہیں۔


خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں جو ہزاروں ویل چیئرز ہر وقت رواں دواں نظر آتی ہیں۔ یہ سب کی سب وہ ہی ہیں جو اسپتالوں یا گھروں میں مریضوں کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر تیار کی گئی ہیں۔ اِن کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اِن کے پچھلے پہیے ٹریکٹر کی طرح بڑے اور اگلے چھوٹے ہوتے ہیں۔ تکنیکی طور پر یہ ویل چیئرز رش اور بھیڑ میں چلانے کے لیے ڈیزائن ہی نہیں ہوئیں لیکن گزشتہ کئی سالوں سے یہ ویل چیئرز حرمین شریف میں بدستور استعمال ہوتی چلی آرہی ہیں۔



ان ویل چیئر کی دوسری بڑی خامی یہ ہے کہ اِن میں بیٹھنے والوں کے لیے پاؤں رکھنے کے جو ’’فُٹ پیڈ‘‘ بنائے جاتے ہیں وہ بھیڑ اور رش میں ویل چیئر سے آگے چلنے والے کی ٹانگوں اور ٹخنوں کو زخمی کر دیتے ہیں۔ اِس ویل چیئر کی تیسری خامی یہ ہے کہ اِس کے پچھلے بڑے بڑے سائیکل نما پہیوں میں اردگرد سے گزرنے والوں کے لٹکے ہوئے احرام اور خواتین کے عبا کے پلو پھنس جاتے ہیں جس سے یہ ویل چیئر آناً فاناً اُلٹ جاتی ہے۔


اِس کی چوتھی خامی یہ ہے کہ اس ڈیزائن کی ویل چیئر میں بریک سسٹم ہے ہی نہیں ، اس لیے اِس کو دھکیلنے والے کے لیے چڑھائی اور اُترائی کی راہ عذاب بن جاتی ہے۔ اگر ویل چیئر چلانے والا اچھی صحت کا مالک نہیں تو وہ حادثے کا شکار ضرور ہو گا۔ خاص طور پراس صورت حال میں ویل چئیر دھکیلنے والی خواتین کے بس کا تو یہ روگ نہیں ۔ اِس ویل چیئر کی پانچویں خامی یہ بھی ہے کہ اگر یہ خراب ہو جائے تو یہ اتنی وزنی ہوتی ہے کہ اِس کو اٹھا کر بھیڑ میں سے نکلنے کی کوشش موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتی ہے۔


نئے ویل چیئر ٹریک پر اگر ایک وقت میں ایک ہزار ویل چیئر موجود ہوں تو اِن میں سے بہ مشکل 10 ویل چیئرز ہی آپ کو ایسی نظر آئیں گی جو بھیڑ اور رش میں چلانے کے لیے ڈیزائن کی ہوتی ہیں اور وہ وزن میں نہایت ہلکی پھلکی اور انتہائی مضبوط بھی ہوتی ہیں۔


اِن میں بریک کی سہولت، چیئر چلانے والے کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اس کے علاوہ معذور افراد کی ضروری اشیاء رکھنے اور لٹکانے کے لیے الگ سے بندوبست ہوتا ہے۔ اِن ویل چیئرز کی نشانی یہ ہے کہ اِن کے چاروں پہیوں کا سائز قریباً چھ انچ چوڑا اور چاروں پہیے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ یاد رہے اِن چیرز کی ہیئت بچوں کے واکر کو سامنے رکھ کے ڈیزائن کی جاتی ہے۔ بل کہ اب تو بڑی موٹر ساز کمپنیوں کے علاوہ دیگر ہائی ٹیک کمپنیوں نے بھی ویل چیئر بنانا شروع کر دی ہیں۔


دنیا بھر میں حج اورعمرہ کے علاوہ مختلف مذاہب کے جو بڑے بڑے مذہبی اور غیر مذہبی اجتماعات ہوتے ہیں اب اُن میں معذور افراد کی شرکت ’’میڈیکل ویل چیئر‘‘ کی بجائے واکر نما ویل چیئرز یا جدید الیکڑک ویل چیئرز سے ہی ممکن بنائی جاتی ہے۔ حرمین شریف انتظامیہ نے ابھی تک نہ جانے کیوں اِس طرف توجہ نہیں دی ،گو کہ حرمین شریف انتظامیہ نے سرکاری سطح پر ہر وقت6 ہزار اور نجی سطح پر 6 سو کے قریب ویل چیئرز کا بندوبست کیا ہے۔


اس کے علاوہ روزانہ اللہ کے50 نیک بندے بھی غریب معذور افراد کی ویل چیئرز مفت چلانے کے لیے وہاں موجود ہوتے ہیں۔ ان رضا کار افراد کی تعداد کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ مسجد حرام کے پہلے فلور پر واقع الصفاء آفس کے مطابق’’ ہم نے 100 کے قریب الیکٹرک ویل چیئرز کرایے پر فراہم کرنے کا بندوبست کیا ہوا ہے۔ اِس کے علاوہ500 مزید الیکٹرک ویل چیئرز گراؤنڈ فلور سے فراہم کرنے کی تیاریاں بھی مکمل کی جا رہی ہیں۔


رمضان شریف میں رش ہونے کی وجہ سے الیکٹرک ویل چیئرز کے کرایوں میں اضافے کے باوجود ان کی خاطر خواہ طلب قائم رہی جس کو دیکھتے ہوئے ان کی تعداد بڑھانے پر غور کیا جا رہا ہے ‘‘۔ حرمین شریف میں کرایے کی ویل چیئر کے کام کی نگرانی کے لیے 100اہل کار متعین ہوتے ہیں جو ویل چیئر چلانے والوں سے متعلق شکایات کو نمٹانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور ان کی معاونت پولیس کرتی ہے ۔


مکہ میں حرم شریف میں داخل ہونے کے لیے13 بڑے دروازے(باب) ہیں اور اِن میں سیکڑوں چھوٹے ذیلی دروازے اِس کے علاوہ ہیں۔ جن پر نمبر لگا دیے گئے ہیں۔ آج کل ویل چیئر ٹریک تک


بذریعہ لفٹ داخل ہونے کے لیے ذیلی گیٹ نمبر5 استعمال ہوتا ہے۔ جب رش کی صورت میں مکہ ٹاور کے قریب سے بنائے گئے ایک طویل راستے کے ذریعے ویل چیئرز کو اوپر لے جانا پڑتا ہے، جس میں بعض اوقات ایک سے دوگھنٹے بھی لگ جاتے ہیں۔ سعودی وزارت حج و عمرہ کے مطابق ایک ماہ میں قریباً سات لاکھ پچاس ہزار عمرہ زائرین سعودی عرب آتے ہیں، جن میں سے دو سے اڑھائی لاکھ زائرین ویل چیئرز پر عمرہ کرتے ہیں۔ جب کہ اتنی ہی تعداد میں غیر ممالک سے آنے والے معذور زائر صرف معلومات نہ ہونے کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہو تے ہیں۔


جدہ ائیرپورٹ پر معذور افراد کو بذریعہ ویل چیئر جہاز سے اتارنے اور ائیرپورٹ سے باہر تک چھوڑنے کی مفت سہولت موجود ہے لیکن زائرین چوں کہ اِس سہولت کے حصول کے لیے اپنے ٹریول ایجنٹ کو مطلع ہی نہیں کرتے، جس کی وجہ سے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ اگر وہ آگاہ کرتے بھی ہیں تو دوسری جانب ٹریول ایجنٹ غفلت اور سستی کا مظاہرہ کر جاتے ہیں۔


جدہ ائیرپورٹ سے مکہ یا مدینہ شریف تک لے جانے والی بسوں میں عمومی طور پر ویل چیئر رکھنے کا انتظام نہیں ہوتا، اِس لیے معذور افراد کو یہ سفر اکثرمہنگی ٹیکسی کار میں کرنا پڑتا ہے۔ سعودی حکومت کو بس سروس والوں کو اِس ضمن میں پابند کرنا چاہیے۔


حرمین شریف کے ہوٹلوں میں ویل چیئرز کی فراہمی کا انتظام تو ہوتا ہے مگر یہ اُسی وقت ہوتا ہے جب آپ کا ٹریول ایجنٹ قبل از وقت ہوٹل انتظامیہ کو ویل چیئرز کی فراہمی سے آگاہ کرتا ہے۔


عمرہ اور حج کی سعادت پر جانے کے لیے جہاں دوسری سہولیات اور اُمور پر بے بہا پیسے خرچ ہوتے ہیں، وہاں اگر ہمت کرکے آپ اپنی ذاتی واکر نما ویل چیئر، پاکستان سے ہی خرید کر اپنے ساتھ لے جائیں تو اُس کی افادیت کا اندازہ آپ کو وہاں جا کر ہوگا کہ آپ کتنی بڑی مصیبت اور مشقت سے بچ چکے ہیں۔ مریضوں کے لیے بنائی اور واکر نما ویل چیئر اور میڈیکل مقاصدکے لیے تیار کی جانے والی ویل چئیر کی قیمتوں میں بہ مشکل چار سے پانچ ہزار روپے کا فرق ہوتا ہے لیکن سہولت کا یہ فرق وہاں جا کر آپ کو لاکھوں کے برابر معلوم ہو گا، یہ فرق یہاں نہیں ہو سکتا ۔


واکر نما ویل چیئر اور مریضوں والی ویل چیئر کی ساخت آپ انٹرنیٹ پر کسی بھی سرچ انجن کے امیج میں جا کر دیکھ سکتے ہیں۔ بل کہ یو ٹیوب پر تو دونوں طرح کی ویل چیئرز کو چلانے اور اُن کے پرزوں کو کھولنے اور جوڑنے سے متعلق معلوماتی ویڈیو کلپ بھی موجود ہیں۔


یہ سچ ہے کہ حرمین شریف میں سہولیات کی فراہمی کے لیے ہر کوشش کی جاتی ہے مگر اِس امر کی کمی ہے کہ اگر آپ کی ویل چیئر ٹوٹ گئی یا خراب ہو گئی تو اِس کی فوری مرمت کے لیے آپ کو قریب میں کوئی ورکشاپ یا اس نوعیت کی سہولت بھی میسر ہو جائے۔


اس صورت میں یا تو آپ نئی ویل چیئر خریدیں گے یا پھر کرایہ پر لی جانے والی خراب ویل چیئر کے’’ ڈیمج چارجز‘‘ ادا کرنے کے بعد آپ دوبارہ نئی چیئرکرایے پر لیں گے۔ ان دو طریقوں میں سے کسی ایک کا انتخاب ،آپ کا خاصا وقت اور پیسہ ضائع کرسکتا ہے۔ اگر سعودی حکومت نجی سطح پر ویل چیئرز کے سپیئر پارٹس اور ان کی خرابی کو دور کرنے کے لیے حج سے پہلے کوئی مناسب ورکشاپ نما سہولت فراہم کر دے تو نئے ویل چیئر ٹریک کی افادیت دوگنا سے چار گنا ہو جائے گی۔


خبردار آپ کی ویل چیئر کسی وقت بھی چوری ہوسکتی ہے
حج یا عمرہ پر جانے والے معذور افراد کے ساتھ جانے والوں کو ویل چیئر کے حفاظت کے لیے ہروقت ہوشیار رہنا چاہیے۔ اگر ایک بار یہ نظروں سے اوجھل ہو گئی تو پھر آپ ’’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ‘‘ کی کیفیت سے گزرنے کے لیے تیار رہیں۔ اپنی ذاتی ویل چیئر پر معذور فرد کا نام، پاسپورٹ نمبر اور اپنے مُلک کا نام انگریزی اور عربی زبان میں آئل پینٹ سے نمایاں طور لکھوانا چاہیے۔


اس کے علاوہ ویل چیئر کو مضبوط قسم کا تالہ لگانے اور اسے لوہے کی زنجیر سے کسی مستقل ہُک یا کسی بھی دوسری شے سے باندھنے کا انتظام پہلے سے کرلینا چاہیے تاکہ جب آپ وضو خانے یا فرش پر نماز پڑھنے کے بعد واپس ویل چیئر کی جانب لوٹیں تو آپ کو ویل چیئر کے گُم ہو نے کے صدمے سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ ویل چیئر چوری کرنے والے اسے کندھے پر اُٹھا کر بھی لے جاتے ہیں۔



مہارت کے بغیر ویل چیئر مت چلائیں
ویل چیئر دھکیلنے والے معذور افراد کے مدد گار کا صرف صحت مند ہونا ہی کافی نہیں بل کہ اسے اوزاروں کے ساتھ ویل چیئر کو درست کرنے کی تھوڑی بہت سوجھ بوجھ بھی ہو نی چاہیے۔ اس مقصد کے لیے ایک سفری ٹول کٹ اگر خرید کر ساتھ رکھ لی جائے تو بُرے وقت سے نکلنے میں آپ کو دقت نہیں ہو گی۔ ویل چیئر کو معذور سمیت فٹ پاتھ پر چڑھانے اور اتارنے کے لیے جہاں بازؤں میں دم خم ہونا چاہیے وہاں ویل چیئر کا مضبوط ہونا بھی لازم ہے۔ راستے میں آنے والے فٹ پاتھ سے اترنے کے ہمیشہ ویل چیئر کے پچھلے پہیے پہلے اتاریں۔


چیئر کو اوپر چڑھانے کے لیے ہاتھوں میں پکڑے دونوں ہینڈلز کی مدد سے چیئر کو اوپر اٹھا کر پہلے اگلے پہیے فٹ پاتھ پر رکھنے چاہیں اور اس کے بعد زور لگا دیکھیں کہ آپ ہینڈلوں کی مدد سے معذور کا وزن اٹھا سکتے ہیں یا نہیں، اگر نہیں تو دوسری صورت میں اگلے پہیے فٹ پاتھ پر رکھنے کے بعد معذور کو کھڑا کر کے آپ چیئر کو فٹ پاتھ پر چڑھائیں۔ اگر معذور کھڑا نہیں ہو سکتا اور آپ کے نزدیک کوئی مدد گار بھی نہیں تو ایسے میں بیٹھنے والی سیٹ سے چیئر کو اٹھانا ضروری ہوجاتا ہے۔


اس تکنیک میں گو کہ زور زیادہ لگتا ہے لیکن مریض گرنے سے بچ جاتا ہے۔ فٹ پاتھ پر چڑھتے یا اُترتے اور غیر ہم وار راستوں سے گزرتے ہوئے چیئر کی سیٹ بیلٹ ضرور باندھنی چاہیے ۔ اس سے اگر چیئر کسی ٹھوس شے سے ٹکرا کر اُلٹ بھی جائے تو مریض کو زمین پر سر کے بل گرنے سے لگنے والی خطرناک چوٹ اور ٹانگ یا کولہے کی ہڈی ٹوٹنے سے بچایا جاسکتا ہے



About the author

Afzaal-Baig

36 years old
Male
Married
Love wife

Subscribe 0
160