رفوگر
دھیان سے
یہ زخم خنجر کے نہیں
ادھڑے ہویۓ وعدوں کی رسوائی کے ہیں
انہیں چھونا نہیں
ان کی تہوں میں جھانک کر
درد مسلسل کو پرکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے
دل ہے آخر
اور پھر زخموں سے چھلنی ہے
کہیں سے لاؤ اس کے لمس کا اطلس
کہیں سے لاؤ اسکا عکس مہ تابی
رفوگر
اس کے کنج لب سے کوئی مسکراہٹ کا ذرا سا شائبہ
ایک واہمہ
اسکی گلابی انگلیوں کا رس
مگر
اب نہیں
اب کچھ نہیں ....
بے فائدہ ہے
کچے پکے عشق کے مد مقابل
تیسرے درجے کا کینسر
رفوگر
زخم رہنے دو
یہ جیسا ہے
انہیں ویسا رہنے دو
اسے بہنے دو
rafogar
Posted on at