شرمین عبید کی بنائی گئی فلم میں عورتوں کے خلاف جس تشدد پسندی اور جارحیت کو موضوع بنایا گیا ہے اس سے تیسری دنیاکی خواتین کو ایک اور ظلم کی داستان کی صورت سے متعارف کرایا گیا ہے۔ یہ ظلم یہاں صدیوں سے جاری ہے اور اس کے پیچھے حقائق و شواہد کا ایک طویل انتظار بھی لوگوں کو اپنی جانب متوجہ نہیں کر سکتا ہے لیکن شرمین عبید کے اس کارنامے کو بے حد سراہنا چاہئے کہ انہوں نے کس آسانی سے تیزاب سےجھلسے چہروں کو وقار دیا ہے۔
یقیناً وہ اس کامیابی پر آسکر کی حقدار ہی تھیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ناقدین کی ایک لمبی قطار نے شرمین کو بھی نہیں بخشا کچھ کے خیال میں یہ صنفی برابری کی ایک نئی کوشش ہے توبعض نے اپنی قیمتی رائے کا اظہار یوں کیا کہ "پرانی بات ہے" بات نئی ہو یا پرانی دراصل یہ بات نہیں ہے ایک المیہ ہے۔ تیزاب سے جھلس کر اگر کوئی عورت بچ بھی جاتی ہے تو وہ بدنما، بدصورت ہونے کے بعد کس طرح دنیا کا مقابلہ کر سکتی ہے؟ اسے سماجی، گھریلو اور پیشہ ورانہ زندگی میں دوبارہ پہلے جیسا مقام و عزت نہیں دی جاتی۔
اس ڈاکومینٹری فلم میں گلیمر کا نشان دور دور تک نہیں ہے، بے یار و مددگار عورتوں کے مسائل اور ان کے حل کے لیے اب تک خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا ہے جس قدر ممکن ہو الفاظی کی حد رک بہت کارنامے ہر حکومت نے سرانجام دیئے ہیں مسئلہ یہں بھی ہے کہ شرمین چونکہ صنف کے کمزور گروہ سے تعلق رکھتی ہیں تو انہیں بھی اسی امتیاز کا نشانہ بنایا گیا۔
اگر یہ کامیابی کسی اور ملک کے حصے میں آتی تو اب تک جشن کا سماں ہوتا اور وہاں کی حکومت چوکنی ہو چکی ہوتی۔ ہم تو اب تک روٹی، کپڑا اور مکان کی جنگ لڑ رہے ہیں تو پھر کیسے اور کب اتنا وقت نکالیں کہ saving face دیکھ لیں۔ لوڈشیڈنگ کی ٹائمنگز، موسم کی شدت کے پیش نظر ایک بار پھر بدل گئی ہیں۔ بڑی مشکل سے لوگ خود کو بجلی جانے اور آنے کے عمل میں خود کو ایڈجسٹ کرتے ہیں مگر کیا کہیئے کہ اس ملک کا نظام بھی دراصل بجلی سے چلتا ہے۔ بجلی جاتے ہی ہمارے ملک کا نظام بھی تاریکی میں ڈوب جاتا ہے اور تاریکی میں ڈوبے ہوئے ملک میں شرمین عبید کی ڈاکومینٹری دیکھنے کی فرصت کب ملے گی۔
ہونا تو یہ چائے تھا کہ پسماندہ علاقوں میں جہاں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات عام ہیں وہاں بڑی سکرین لگا کے saving face دکھائی جاتی لوگوں کو سمجھایا جانا تھا کہ ان عورتوں کو کیسی مشکلات کا بعد ازاں سامنا ہوتا ہے، لیکن جزبات اور اشتعال کے فرق سے نابلد یہ قوم صرف کرکٹ کے میدان میں جاگتی ہے۔ اپنے مسلمان بھائیوں کو ایک بار پھر شکست کے غم سے دوچار کرنے کے بعد ہم بہت خوش ہیں، ایشاء کپ جیتنا ایک شاندار کامیابی ہے لیکن کسی کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ saving face دیکھ لی جائے۔
ہمارے ملک کا نظام چلانے کے لئے شاید اب بیرونی قوتوں کو دعوت دینی پڑے گی کیونکہ اگر حکمران فاضل ہیں تو ہم تو ہوش کے ناخن لے سکتے ہیں۔ انسان غلطیوں سے سیکھتا ہے، مگر ہماری قوم نے تو گویا قسم کھا لی ہے کہ سیکھنا ہے نہ ہی کچھ کرنا ہے۔ جن قوموں کو کھانے، پینے اور سیروتفریح میں لگا دیا جائے وہ مدہوش قومیں اپنی تاریخ بھی بھول بیٹھتی ہیں اور آخر کار ان کی تاریخ دوسری قومیں رقم کرتی ہیں۔