Women Rights

Posted on at


آج پوری دنیامیں خواتین کے حقوق کامسئلہ اہم ترین مسئلہ بن کرسامنے آچکاہے۔ پوری دنیامیں کام کرنے والی تنظیمیں اورحکومتیں خواتین کی صلاحیتوں کابھرپورفائدہ اٹھانے اوران کومردوں کے مساوی حقوق دلوانے پرکام کررہی ہیں۔ دنیامیں ترقی یافتہ قوموں نے انہی خواتین کی صلاحیتوں کابھرپوراستعمال کیاہے جبکہ بہت سے ترقی پذیرممالک مذہب ، کلچر،روایات کے نام پرخواتین کوترقی کے عمل میں شامل نہیں کرسکے ۔ اگرپاکستان کی تاریخ کودیکھاجائے توسابقہ ادوارمیں خواتین کے ساتھ انتہائی برے سلوک کیے جاتے رہے مگراگرسابقہ دہائی کودیکھاجائے توجہاں سابقہ حکومتوں پرجن میںجنرل مشرف کادوراورپاکستان پیپلزپارٹی کے دوراقتدارپرانگلیاں اٹھائی جاتی رہیں وہاں ہی ان حکمرانوں نے خواتین کی ترقی کے لیے کئی اہم کارنامے سر انجام دیے ، ان کومردوں کے مساوی حقوق دلوانے ان کومعاشرے میں ایک اہم فردکی حیثیت سے سراٹھانے کے علاوہ پاکستان کی عدالتوں کے لیے بنائے جانے والے سابقہ قوانین میںترامیم کرکے جوقانونی مسودے پیش کیے اورقانونی تحفظ فراہم کیاوہ قابل ستائش ہے ۔ ان ترمیم شدہ قوانین کے آنے کے بعداب خواتین کوجہاں اسلامی نقطہ نظرسے منفردمقام اورحیثیت حاصل تھی اب پاکستانی قوانین کے تحت بھی انھیں تحفظ اورانفرادیت حاصل ہوچکی ہے۔ پاکستان دنیاکے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ہرسال ہزاروں عورتیں زچگی اورحمل کے دوران مرجاتی ہیں یہاں ان گنت عورتوں کوغیرت کے نام پرقتل کردیاجاتاہے، صلح کے نام پرعورتوںکوبدلے کی آگ میں چڑھادیاجاتاہے، جس کے نتیجے میں وٹہ سٹہ، ونی، سوارہ ،کم عمری کی شادی، خواتین پرتیزاب یاایسڈکے ذریعے حملہ کرنا، جنسی حراسیت وغیرہ کے جرائم کیے جاتے تھے۔ اورملزمان دندناتے پھرتے رہتے تھے ۔ ہمارے قوانین میں کوئی روک تھام نہ تھی مگرپہلی دفعہ مشرف حکومت نے 2004ءمیں فوجداری مقدمات میں ترمیم کرکے قانونی مسودہ پاس کیاجس کے بعدغیرت کے نام پرقتل یازخمی کرنا،نقصان پہنچانااورخاتون کوبدلہ صلح کے طورپرپیش کرناقابل سزاجرم قراردے دیاگیا۔ جبکہ اسے قبل غیرت کے نام پرقتل اوربدلہ صلح جن سے مرادقتل کے جرم میں صلح کی نیت سے عورت کوشادی کے لیے پیش کردیناجوکہ
 زمانہ قدیم سے یہ روایت چلی آرہی تھی اوراس روایت کانہ تواسلام میں کوئی ذکرہے اورنہ ہی ہمارے قوانین میں مگرہمارے بڑے اوروڈیروں نے بھی اپنی چوہدراہٹ اورحکمرانی قائم کرنے کے لیے یہ قوانین بنارکھے تھے۔ قانونی مسودہ میں 2004ءمیں جوترامیم کی گئی ان کے بعدتعزیرات پاکستان اورضابطہ فوجداری میں بھی دفعات کااضافہ کیاگیاہے تاکہ غیرت کے نام پرقتل اوربدلہ صلح کوروکاجاسکے۔ اس قانون کے اطلاق سے بیشترمذکورہ جرائم میں ملوث افرادقانون کی گرفت سے آزادتھے ۔ یہ قانون پورے ملک پاکستان میں نافذالعمل ہے اورغیرت کے نام پرقتل اوربدلہ صلح سے متاثرہ کوئی بھی شخص یالواحقین ،اسی قانون کے تحت انصاف حاصل کرتے ہیں۔ اس ضابطہ فوجداری میں درج اضافی ضوابط جرم کی نوعیت کااندازہ لگاتے ہیں جبکہ بدلہ صلح کوناقابل سمجھوتہ جرم قراردیاگیاہے۔ حتیٰ کہ لواحقین کی درخواست پربھی معافی نہیں مل سکتی۔ اس قانون کے تحت شادی کے لیے خواتین کوپیش کرناجیسے بدلہ صلح کہتے ہیں کامقدمہ سیشن کورٹ میں تب چل سکتاہے جب عدالت ضابطہ فوجداری کے تحت دیگردفعات پرمبنی مقدمات کی سماعت کرے ۔ اس قانونی مسودہ میں ترامیم کے بعداب غیرت کے نام پرقتل کی صورت میں مختلف سزائیں رکھی گئی ہیں جس کے تحت قصاص یعنی اسلامی قانون کے تحت قتل کے بدلے قتل یاجان کے بدلے جان یاپاکستانی قانون کے تحت سزائے موت یاعمرقید،اسی طرح ارادتاًقتل میں پاکستانی تعزیر کے ذریعے پچیس سال قیدکی سزا، کم ازکم قیدکی کوئی معیادمقررنہیں اس قانون کے تحت غیرت کے نام پرہونے والے قتل کی کم ازکم سزادس سال مقررہے اوراس سزامیںصوبائی حکومت یادیگرکے پاس بھی کوئی اختیارنہیں کہ ایسے مجرم کی سزامیں کسی قسم کی کمی یامعافی کااعلان کرے۔ اس مسودے کے تحت قصاص کے حوالے سے لکھاگیاہے کہ متاثرہ عورت کے لواحقین یااس کے قانونی وارث مجرم کودیت کے ذریعے معاف کرسکتے ہیں۔ مگرغیرت کے نام پرہونے والے قتل کی صورت میں اگروارث یعنی شوہر،باپ ،بیتا،بھائی وغیرہ خودہی مجرم ہیں توایسے شخص کوولی والاحق نہیں مل سکتااورمجرم خودکوہی معاف نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اس قانون کے تحت اگرغیرت کے نام پرکسی شخص کوجسمانی نقصان ،تکلیف ،بیماری ،پاگل پن یازخم دیاگیاہویااسے کسی جسمانی حصہ سے محروم کردیاگیامگراس کی جان نہ لی گئی ہوتواسے مجرم کے لیے بھی تعزیرات پاکستان کے تحت اس کے لیے سزاکی کوئی معیادسے ایک تہائی سے کم سزاکسی صورت نہیں دی جاسکتی۔ اسی طرح بدلہ صلح کی غرض سے کسی عورت کوشادی کے لیے پیش کرنے کی سزاتعزیرات پاکستان کی دفعہ 310اے کے تحت تین سے دس سال قیدبامشقت مقررکی گئی ہے۔ فوجداری قانون 2004ءمیںترمیم شدہ مسودہ میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ زنااوردیگرجرائم کے لیے تفتیشی پولیس آفیسرکم ازکم ایس پی یعنی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ہوگا۔ اس سے انتہائی سنجیدہ جرائم کی تحقیقات میںبنیری کاامکان ہوگاحتیٰ کہ اس قانونی مسودہ کامطلب یہ ہے کہ خواتین کوتحفظ اورفائدہ پہنچاجائے اورانصاف کی فراہمی کے لیے فاصلوں میں کمی لائی جائے ۔ یہ قانون غیرت کے نام پرہونے والے قتل کوناقابل معافی جرم قراردیتاہے اوراس کی بھرپورمذمت کرتاہے۔ اس قانون میں بدلہ صلح اورغیرت کے نام پرجرائم پرسخت سزائیں مختص کی گئی ہیں زناکے حوالے سے تفتیش کامعیاربہتربنانے سے مثبت نتائج متوقع ہیں تاہم غیرت کے نام پرقتل میں سمجھوتہ کی سہولت کے باعث ایسے واقعات میں کمی مشکوک ہوجاتی ہے ۔ صنفی مسائل کے حوالے سے مزیداصلاحات کی ضرورت ہے ۔
یہ اشاعت امریکی عوام کی طرف سے یو ایس ایڈ کے مالی تعاون سے عورت فاﺅنڈیشن کے صنفی مساوات پروگرام کے تحت پی ٓرڈی پی نے شائع کی۔ اس کے مندرجات پی آر ڈ ی پی کی ذمہ داری ہیں اور ان کا امریکی حکومت یو ایس ایڈ اور عورت فاﺅنڈیشن سے کوئی تعلق نہیں ۔



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160